وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ
جب انہوں نے (مصائب پر) صبر کیا تو ہم نے ان میں سے کئی ایسے پیشوا [٢٦] بنا دیئے جو ہمارے حکم سے ان کی رہنمائی کرتے تھے۔ اور یہ لوگ ہماری آیات پر یقین رکھتے تھے۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ اس میں اہل اسلام کے لئے زبردست دھمکی ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل کے لوگ تورات کی تحریف، سچے دین سے انحراف اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دینے کی وجہ سے اللہ کے غضب کے مستحق بن گئے، اسی طرح اس امت کے جو لوگ قرآن و سنت سے انحراف کریں گے، بھلائی کا حکم دینا اور برائی سےر وکنا چھوڑ دیں گے، صبر واستقامت اور ایمان و یقین کی دولت سے محروم ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ قوم یہود کی طرح ان پر بھی ذلت و رسوائی مسلط کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ(الرعد آیت (11) میں فرمایا ہے : ﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ﴾ ” اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنی حالت نہیں بدل لیتی ہے۔ “