يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ
وہی آسمان سے زمین تک کے انتظام کی تدبیر کرتا ہے۔ پھر ایک روز جس کی مقدار تمہارے حساب سے ایک ہزار سال ہے وہی انتظام [٦] اس کی طرف اٹھ جائے گا
(5) اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات سے متعلق تمام احکام و اوامر آسمان سے (جہاں عرش اور لوح محفوظ ہے) زمین کی طرف صادر فرماتا ہے اور فرشتے اسے نافذ کرتے ہیں زندگی اور موت، صحت و بیماری، بخشش و محرومی، مالداری و محتاجی، جنگ و صلح اور عزت و ذلت اور مخلوقات سے متعلق تمام فیصلے، اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر کرتا ہے، وہیں سے وہ تمام مخلوقات کی دیکھ بھال کرتا ہے اور کوئی شے اسے عاجز نہیں کرتی ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تمام آسمانوں کے اوپر سے اتر کر زمین کی آخری تہہ تک پہنچتا ہے جیسا کہ اللہ نے سورۃ الطلاق آیت (12) میں فرمایا :﴿اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ﴾ ” وہ اللہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے ہیں اور انہی کے مانند زمین بھی پیدا کی ہے اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے“ اور بندوں کے اعمال ” آسمان دنیا کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، اور زمین اور اس کے درمیان کی مسافت پانچ سو سال کی ہے اور آسمان کی موٹائی کی مسافت پانچ سو سال کی ہے مجاہد اور قتادہ وغیرہ کہتے ہیں کہ فرشتوں کے نزول کی مسافت پانچ سو سال کی اور ان کے طلوع کی مسافت پانچ سو سال کی ہوتی ہے جسے فرشتے ایک چشم زدن میں طے کرلیتے ہیں اور جب قیامت آجائے گی اور ہر چیز فنا ہوجائے گی، تو زمین کی طرف ان احکام و اوامر کے صادر ہونے کا سلسلہ ختم ہوجائے گا، اس لئے کہ نہ زمین رہے گی اور نہ اس پر کوئی چیز جس میں تصرف اور تدبیر کی ضرورت رہے گی۔ بعض مفسرین نے ﴿ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ﴾ کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ فرشتے اہل زمین کے تمام اعمال صحفیوں میں لکھتے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب دنیا اپنی انتہا کو پہنچ جائے گی تو وہ سارے صحائف اللہ کے سامنے پیش کردیئے جائیں گے اور وہ دن اگرچہ دنیا کا ایک دن ہوگا، لیکن آسمان اور زمین کے درمیان غیر فرشتوں کے طلوع و نزول کی مسافت کے اعتبار سے ایک ہزار سال کے برابر ہوگا۔