اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ
اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کچھ چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش [٤] پر قائم ہوا۔ اس کے سوا تمہارا نہ کوئی سرپرست ہے اور نہ سفارشی [٥]۔ کیا تم کوئی سبق حاصل نہیں کرتے۔
(4) اس آیت کی تفسیر سورۃ الاعراف آیت (45) میں گذر چکی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان کی تمام مخلوقات کو چھ دنوں میں پیدا کیا ہے، صرف وہی عبادت کے لائق ہے اور’’ استوی علی العرش“ کا معنی و مفہوم بیان کرنے میں سلف صالحین کا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر اس طرح مستوی ہے جس طرح اس کے مقام اعلیٰ کے لائق ہے، نہ اس کا انکار کیا جاسکتا ہے نہ اسے مخلوق کی صفت کے ساتھ تشبیہ دی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس کی کیفیت بیان کی جاسکتی ہے۔ ﴿مَا لَكُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ﴾ ” تمام انسانوں کا اللہ کے سوا کوئی حقیقی یار ومدگار نہیں ہے“ اگر وہ کسی کو رسوا کرنا چاہے تو کوئی اسے عزت نہیں دے سکتا اور اگر وہ کسی کو ہلاک و برباد کرنا چاہے تو کوئی اسے بچا نہیں سکتا اور اس کے سوا ان کا کوئی سفارشی نہیں ہے کہ اگر وہ ان کے شرک و معاصی کا انتقام لینا چاہئے تو اس کے حضور سفارش کر کے اس کے غضب سے انہیں بچا لے جب اللہ کے سوا کوئی خالق ارض و سماء نہیں اور نہ اس کے سوا کوئی یار ومددگار اور سفارشی ہے تو پھر انسانوں کو یہ بات کیوں نہیں سمجھ میں آتی کہ اس ذات برحق کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔