وَإِذَا غَشِيَهُم مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ
اور جب ان پر سائبانوں جیسی کوئی موج چھا جاتی ہے تو اللہ کی مکمل حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے خالصتاً [٤٣] اسے پکارتے ہیں پھر جب وہ انھیں بچا کر خشکی تک لے آتا ہے تو پھر کچھ ہی لوگ حد اعتدال پر رہتے [٤٤] ہیں اور ہماری نشانیوں کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جو غدار [٤٥] اور ناشکرے ہوں۔
(24) مشرکین کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ جب وہ جہاز میں سوار ہو کر سمندر میں سفر کر رہے ہوتے ہیں اور عظیم پہاڑ جیسی موجیں انہیں ہر چہار جانب سے گھیر لیتی ہیں تو وہ اپنے تمام جھوٹے معبودوں کو بھول جاتے ہیں اور پورے اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارنے لگتے ہیں تاکہ وہ انہیں اس مصیبت سے نجات دے اور جب اللہ ان کے حال پر رحم کرتے ہوئے بخیر و عافیت ساحل سمندر تک پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے بعض لوگ سطح سمندر پر اللہ سے کئے گئے عہد و پیمان پر قائم رہتے ہیں اور اس کے ساتھ غیروں کو شریک نہیں بناتے ہیں اور بعض اپنے سابق کفر و شرک کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہماری نشانیوں کا انکار بد عہد اور ناشکرے لوگ کرتے ہیں۔ (دیکھئے تفسیر شو کانی) حافظ ابن کثیر نے مجاہد کے حوالے سے ” مقتصد“ کی تفسیر کافر کی ہے۔ یعنی جب اللہ انہیں ساحل پر پہنچا دیتا ہے تو سطح سمندر پر کیا گیا عہد و پیمان بھول کر پھر کفر و شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔