وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور اگر وہ تجھ پر یہ دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک بنائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں [١٩] تو ان کا کہا نہ ماننا۔ البتہ دنیوی معاملات میں ان سے بھلائی کے ساتھ رفاقت کرنا مگر پیروی اس شخص کی راہ کی کرنا جس نے میری طرف رجوع [٢٠] کیا ہو۔ پھر تمہیں میرے پاس [٢١] ہی لوٹ کر آنا ہے تو میں تمہیں بتادوں گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔
آیت (15) میں اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر تمہارے والدین تمہیں شرک پر مجبور کریں تو ان کی بات نہ مانو اور جب تک دنیا میں تمہارا اور ان کا ساتھ رہے، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اور ان لوگوں کی راہ پر چلو جو میرے نیک اور مخلص بندے ہیں اور لوگوں کو میری عبادت کی دعوت دیتے ہیں مفسرین لکھتے ہیں کہ ان سے مراد بدرجہ اولی رسول اللہ (ﷺ) اور پھر دیگر صالح مسلمان ہیں اللہ نے آگے فرمایا : پھر مر جانے کے بعد تمہیں میرے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے۔ اسی وقت میں تمہیں تمہارے تمام کرتوتوں کی خبر دوں گا اور ان کے مطابق اچھا یا برا بدلہ دوں گا۔ ابویعلی اور طبرانی وغیر ہم نے سعد بن وقاص (رض) سے اور طبری نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ آیت سعد بن وقاص اور ان کی ماں کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جب ان کی ماں نے ان کے اسلام لانے کے بعد کھانا پینا چھوڑ دیا تھا اور کہا تھا کہ تم جب تک اسلام سے برگشتہ نہیں ہو گے، میں کھانا نہیں کھاؤں گی، تو انہوں نے کہا کہ امی جان ! آپ کی اگر سو روحیں ہوتیں اور ہر ایک باری باری نکل جاتی تو بھی میں اپنا دین نہ چھوڑتا، اس لئے بہتر ہے کہ آپ کھایئے پیجیے اور مجھ سے امر مستحیل کا مطالبہ نہ کیجیے۔ چنانچہ وہ کھانے لگی۔