وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ
لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو اس لئے بیہودہ [٤] باتیں خریدتا ہے کہ بغیر علم [٥] کے اللہ کی راہ سے بہکا دے اور اس کا مذاق اڑائے [٦]۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے رسوا کرنے [٧] والا عذاب ہے۔
(3) اوپر کی آیتوں میں اللہ کے نیک بندوں کا ذکر ہوا ہے جن کی زندگی اللہ کی یاد میں گذرتی ہے اور ہر قسم کی لغویات سے دور رہ کر فکر آخرت میں لگے رہتے ہیں، ان کے برعکس کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو فکر آخرت سے غافل، لہو و لعب، رقص و سرود اور دنیا کی لذتوں میں ڈوبے ہوتے ہیں، اس آیت کریمہ میں انہی کا ذکر آیا ہے، کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ذکر الٰہی اور فکر آخرت کے بدلے کھیل کود، گانا بجانا، ہنسی مذاق، جھوٹے قصوں اور ہر اس امر منکر کو اپنا لیتے ہیں جو انہیں اور غیروں کو اللہ کی سیدھی راہ سے ہٹا کر شیطا ن کی راہ پر ڈال دیتے ہیں اور وہ اپنے کئے کے انجام سے اور ذلت و عار اور عذاب نار سے بے خبر ہوتے ہیں جو موت کے بعد ان کا اتنظار کر رہے ہیں، قرطبی نے لکھا ہے کہ یہاں ﴿لَهْوَ الْحَدِيثِ﴾سے مراد گانا اور موسیقی ہے صحابہ و تابعین کا یہی قول ہے، امام بخاری نے ” الادب المفرد‘ میں ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ ﴿لَهْوَ الْحَدِيثِ﴾ سے مراد ہر ناحق بات ہے اور یہ آیت نضر بن حارث بن علقمہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو عراق و شام جا کر قیصر و کسریٰ کی حکایات کی کتابیں لایا تھا اور کفار قریش کو سنا کر قرآن سے انہیں دور رکھنے کی کوشش کرتا تھا، ابن مسعود (رض) نے قسم کھا کر کہا کہ ﴿لَهْوَ الْحَدِيثِ﴾ سے مراد گانا ہے۔ نضر بن حارث نے لوگوں کو قرآن سے دور رکھنے کے لئے ایسی لونڈیاں بھی خرید رکھی تھیں جو رقص و سرود میں ماہر تھیں جب اسے مکہ کے کسی اہم آدمی کے بارے میں معلوم ہوتا کہ وہ اسلام و قرآن سے متاثر ہو رہا ہے تو اس کے پیچھے اپنی کسی لونڈی کو لگا دیتا جو اسے اپنی محفلوں میں بلاتی اور اسلام کی طرف سے اس کی توجہ پھیر دیتی۔ حکایات و خرافات اور رقص و سرودرکی ان محفلوں میں اسلام کا مذاق بھی اڑایا جاتا تھا تاکہ لوگ اس کی طرف سے بالکل ہی برگشتہ ہوجائیں اور ہر زمانے میں جب بھی کوئی شخص اسلام سے دور ہو کر شیطان کی راہ پر لگا اور اس نے رقص و سرود کی محفلیں جمائیں تو بالعموم ایسی محفلوں میں اسلام کا مذاق اڑایا جاتا رہا، اس پر پھبتیاں کسی جاتی رہیں اور طرح طرح کے اوچھے جملے چست کئے جاتے رہے، تاکہ لوگوں کو اسلام سے دور رکھا جائے، آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن انہیں رسوا کن عذاب دیا جائے گا۔