سورة العنكبوت - آیت 41

مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا ۖ وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ ۖ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اوروں کو سرپرست بنا رکھا ہے ان کی مثال مکڑی جیسی ہے جس نے اپنا گھر بنایا ہو اور سب گھروں سے کمزور گھر مکڑی [٦٦] کا گھر ہی ہوتا ہے۔ کاش! یہ لوگ کچھ جانتے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(23) تمام انبیائے کرام کی بعثت کا مقصد یہی تھا کہ وہ بنی نوع انسان کو صرف ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دیں گے اور انہیں غیروں کو اپنا معبود اور یارومددگار ماننے سے روکیں، مذکورہ بالا قوموں میں سب سے پہلی بیماری یہی پائی گئی کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک کیا جو دوسرے گناہوں کے ساتھ مل کر ان کی ہلاکت وبربادی کاسبب بنی اس لیے اس آیت کریمہ میں اللہ نے شرک کی شناعت وقباحت کو ایک مثال کے ذریعہ واضح کیا گیا کہ جو لوگ اللہ کے سوا غیروں کو اپنا یارومددگار مانتے ہیں اور ان کے سامنے سرجھکاتے ہیں ان کی مثال مکڑی اور اس کے جالے کی ہے مکڑی اپنا جالا اپنے اردگرد بن کرسمجھتی ہے کہ اب وہ سردی گرمی اور ہر دشمن سے محفوظ ہے لیکن وہ جالا کتنا کمزور ہوتا ہے اس کا علم سب کو ہے یہی حال مشرکوں اور ان کے اولیاء کا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اصنام ان کے کام آئیں گے حالانکہ ان کی عاجزی وبے بضاعتی کاجوحال ہے وہ سب کو معلوم ہے کہ اگر ایک مکھی بھی ان بتوں پر بیٹھ جائے تو اسے بھگانے کی ان کے اندر سکت نہیں اور یہ بت اتنی واضح ہے کہ ادنی عقل کا انسان بھی اسے سمجھتا ہے لیکن شرک نے ان کی عقلوں پر پردہ ڈال دیا ہے اس لیے انہیں کچھ بھی سمجھ نہیں آتا ہے ۔