إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ ۚ قُل رَّبِّي أَعْلَمُ مَن جَاءَ بِالْهُدَىٰ وَمَنْ هُوَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اے نبی! بلاشبہ جس (اللہ) نے آپ پر قرآن (پر عمل اور اس کی تبلیغ) [١١٥] فرض کیا ہے وہ آپ کو (بہترین) [١١٦] انجام کو پہنچانے والا ہے۔ آپ ان (کافروں) سے کہئے کہ : میرا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت [١١٧] لے کر آیا ہے اور کون واضح گمراہی میں پڑا ہے۔
(46) اس آیت کریمہ میں لفظ ’’معاد‘‘، کی تفسیر میں علما کے کئی اقوال ہیں جمہور مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد مکہ ہے امام بخاری نے ابن عباس سے بھی یہی روایت کی ہے اس کی تائید ابن مردویہ کی اس روایت سے ہوتی ہے جوانہوں نے علی بن حسین بن واقد سے روایت کی ہے کہ یہ آیت ہجرت کے وقت جحفہ کے مقام پر نازل ہوئی تھی۔ یعنی اللہ نے اپنے نبی کو ہجرت کے وقت ہی خوش خبری دے دی کہ اگرچہ آج آپ کو اپنے دین اور اپنی جان کی حفاظت کے لیے مکہ چھوڑنا پڑا ہے لیکن ایک دن آئے گا کہ آپ وہاں بحیثیت فاتح واپس جائیں گے۔ بعض لوگوں نے اس سے مراد جنت اور بعض نے قیامت کا دن مراد لیا ہے حافظ ابن کثیر نے یہی تفیسر بیان کی ہے صاحب محاسن التنزیل نے اس سے مراد مقام محمود لیا ہے جس کا اللہ نے اپنے نبی سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ قیامت کے دن نہیں وہ مقام عطا کرے گا۔ آیت کے دوسرے حصہ میں مشرکین مکہ کی تردید کی گئی ہے جونبی کریم (ﷺ)کو گمراہ کہتے تھے اور کہتے تھے کہ محمد اپنے آباواجداد کا دین چھوڑ کر ایک نئے دین کا داعی بن گیا ہے اللہ نے اپنے نبی کی زبانی فرمایا اللہ خوب جانتا ہے کہ کون اللہ کا صحیح دین لے کرآیا ہے اور کون لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں یعنی مشرکین مکہ ہی گمراہ ہیں اور ان کی گمراہی ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے۔