وَأَصْبَحَ الَّذِينَ تَمَنَّوْا مَكَانَهُ بِالْأَمْسِ يَقُولُونَ وَيْكَأَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ ۖ لَوْلَا أَن مَّنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا ۖ وَيْكَأَنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ
اب وہی لوگ جو کل تک قارون کے رتبہ کی تمنا کر رہے تھے، کہنے لگے'': ہماری حالت پر افسوس! اللہ ہی اپنے بندوں میں سے جس کا چاہے رزق کشادہ [١١١] کردیتا ہے اور جس کا چاہے تنگ کردیتا ہے۔ اگر اللہ ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا۔ افسوس! اصل بات یہ یہی ہے کہ کافر لوگ فلاح نہیں پاسکتے
جن لوگوں نے قارون کی تزک واحتشام دیکھ کر اس جیسی دولت کی تمنا کی تھی جب انہوں نے اسے اس کے گھربار کے ساتھ زمین میں دھنستے دیکھا تو اپنی تمنا پر نادم ہوئے اور کہنے لگے کہ اب ہمیں معلوم ہوگیا کہ اللہ اپنی حکمت ومشیت کے مطابق لوگوں میں روزی تقسیم کرتا ہے کسی کو خوب روزی دیتا ہے اور کسی پر اس کے دروازے تنگ کردیتا ہے روزی میں وسعت اور تنگی نیک بختی، یابدبختی کی دلیل نہیں ہے ورنہ آج قارون اپنے مال واسباب کے ساتھ زمین میں دھنسا نہ دیا جاتا اگر اللہ کا ہم پر احسان نہ ہوتا، اور ہم بھی قارون کی طرح کبر وغرور میں مبتلا ہوتے تو ہمیں بھی اسی کی طرح زمین میں دھنسا دیا جاتا ہمیں یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ جو لوگ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں کبر وغرور میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اللہ کے دین اور اس کے رسول کا انکار کرتے ہیں دنیاوآخرت میں نامرادی ان کی قسمت بن جاتی ہے۔