فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا لَوْلَا أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ مُوسَىٰ ۚ أَوَلَمْ يَكْفُرُوا بِمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُ ۖ قَالُوا سِحْرَانِ تَظَاهَرَا وَقَالُوا إِنَّا بِكُلٍّ كَافِرُونَ
پھر ہم ہماری طرف سے ان کے پاس حق آگیا تو انہوں نے کہہ دیا : اسے ویسے معجزات کیوں نہیں دیئے گئے جیسے موسیٰ کو دیئے گئے تھے ’’کیا یہ لوگ ان معجزات کا انکار کرچکے جو پہلے [٦٤] موسیٰ کو دیئے گئے تھے؟‘‘ کہتے ہیں کہ : ’’یہ دونوں [٦٥] (تورات اور قرآن) جادو ہیں جو ایک دوسرے کی تائید کرتے ہیں‘‘ اور کہتے ہیں کہ : ’’ہم کسی کو بھی نہیں مانتے‘‘[٦٦]
لیکن رسول آنے کے بعد ان کی حالت نہیں بدلی، بلکہ ہٹ دھرمی شروع کردی اور کہنے لگے کہ جس طرح موسیٰ کو معجزات دیے گئے تھے اگر محمد بھی رسول ہے تو اسے بھی اسی جیسے معجزات کیوں نہیں دیے گئے جن کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہم اس پر ایمان لے آتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس ہٹ دھرمی کا یہ جواب دیا کہ اگر ان کی یہ بات صحیح ہوتی کہ کفار معجزات دیکھنے کے بعد ایمان لے آتے تو پھر فرعونیوں نے معجزات دیکھنے کے باوجود کیوں کفر کی راہ اختیار کی وہ بھی توانہی کفار قریش جیسے انسان تھے اور اللہ کی، الوہیت کے منکر اور کفر اور سرکشی میں حد سے بڑھے ہوئے تھے اور موسیٰ وہارون کے بارے میں کہا تھا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں اور لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں اور ایک دوسرے کے معاون ہیں اور ہم لوگ ان دونوں کی نبوت کا انکار کرتے ہیں، ایک دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر کفار قریش اپنی بات میں سچے ہیں تو پھر محمد سے پہلے موسیٰ پر کیوں نہیں ایمان لائے تھے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ کفار قریش نے یہود مدینہ کے پاس آدمی بھیج کر رسول اللہ کی صداقت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں اس کے اوصاف تورات میں موجود ہیں اور وہ کذاب ودجال نہیں ہے تو کفار قریش نے تورات کا بھی انکار کردیا اور کہا کہ موسیٰ اور محمد دونوں ہی جادوگر ہیں اور جادو کے ذریعہ موسیٰ نے اپنے زمانہ کے لوگوں کو گمراہ کیا اور اب محمد بھی وہی کام کررہا ہے اس لیے ہم دونوں کی نبوت کا انکار کرتے ہیں۔