وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ مِن بَعْدِ مَا أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولَىٰ بَصَائِرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
پہلی نسلوں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے موسیٰ کو کتاب دی۔ جس میں لوگوں کے لئے بصیرت افروز دلائل، ہدایت اور حمت تھی [٥٦] تاکہ وہ سبق حاصل کریں
(21) امام شوکانی نے لکھا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک، قرون اولی، سے مرادنوح وعاد ثمود اور ماضی کی دوسری قومیں ہیں اور ایک دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد فرعون اور اس کی کافر قوم ہے آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا کافر قوموں کو ہلاک کردیا یافرعون اور فرعونیوں کو ہلاک کردیا، تو اس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل کی، ابن کثیر لکھتے ہیں کہ نزول تورات کے بعد کسی قوم کو یکسر ہلاک نہیں کیا گیا بلکہ مومنوں کو مشرکوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ابن جریر نے ابوسعید خدری (رض) کا قول نقل کیا ہے نزول تورات کے اللہ نے کسی قوم کو آسمانی یا زمینی عذاب سے یکسر ہلاک نہیں کیا سوائے اس بستی والوں کے جن کی صورتوں کو مسخ کرکے بندر بنادیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس تورات کی صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ لوگوں کے لیے نور بصیرت ہے اور راہ حق کی طرف ہدایت دیتی ہے اور عمل صالح کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور یہ اس لیے نازل کی گئی تھی تاکہ اس زمانہ کے لوگ اس سے نصیحت حاصل کرتے اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے۔