قَالَ ذَٰلِكَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ ۖ أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ۖ وَاللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ
موسیٰ نے جواب دیا : یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہوگئی۔ [٣٨] جونہی مدت بھی میں پوری کرو مجھ پر کچھ دباؤ نہ ہوگا۔ اور جو کچھ ہم قول و قرار کر رہے ہیں اس پر اللہ نگہبان ہے۔
موسیٰ نے جواب دیا کہ جو بات میرے اور آپکے درمیان طے ہوئی ہے اس کے ہم دونوں پابند رہیں گے اور دونوں مدتوں میں سے جس پربھی عمل کروں مجھے اختیار حاصل ہے نہ مجھ سے آٹھ سال سے زیادہ کا اور نہ ہی اس کا مطالبہ کیا جائے گا،(میری خواہش کے برخلاف) دس سال سے پہلے ہی اپنی بیوی کولے کریہاں سے چلاجاؤں گا اور ہم دونوں اللہ کو گواہ بناتے ہیں۔ امام شوکانی لکھتے ہیں یہ آیت کریمہ دلیل ہے ان کے دین میں اجرت پر ملازم رکھنا جائزتھا نیز یہ کہ باپ کسی نیک آدمی کو اپنی لڑکی سے شادی کرلینے کی پیشکش کرسکتا ہے صحابہ کرام کی یہ سنت رہی ہے اور عمربن خطاب کا واقعہ مشہور ہے کہ انہوں نے ابوبکر اور عثمان کو اپنی بیٹی حفصہ سے شادی کرنے کی پیشکش کی تھی اور ایک صحابیہ نے رسول اللہ کو اس سے شادی کرلینے کی پیشکش کی تھی یہ واقعات صحیح روایات سے ثابت ہیں۔