فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا ۚ فَلَمَّا جَاءَهُ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ ۖ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
اتنے میں ان دونوں عورتوں میں سے ایک عورت شرم سے کانپتی ہوئی ان کے پاس آئی اور کہنے لگی : ’’آپ نے ہماری بکریوں کو جو پانی پلایا ہے تو میرا باپ آپ کو بلاتا ہے تاکہ آپ کو اس کا اس کا صلہ دے‘‘ [٣٤] پھر جب موسیٰ اس شخص (شعیب) کے پاس آئے اور انھیں اپنا سارا [٣٥] حال سنایا تو اس نے کہا : ’’ڈرو نہیں۔ تم نے ان ظالموں سے نجات پالی‘‘
(13) اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ جیسا کہ امام شوکانی نے لکھا ہے وہ دونوں شعیب (علیہ السلام) کی لڑکیاں تھیں جب دونوں عادت کے خلاف جلد ہی بکریوں کو پانی پلا کر گھر پہنچ گئیں تو ان کے باپ نے حیرت سے سبب پوچھا انہوں نے وجہ بتائی تو باپ نے دونوں میں سے ایک کو واپس بھیج دیا کہ جا کر اس نوجوان سے کہو میرے والد تمہیں تمہاری مزدوری دینے کے لیے بلارہے ہیں، لڑکی نہایت شرم وحیا کے ساتھ گھونگھٹ نکالے، موسیٰ کے پاس آئی اور اپنے باپ کا پیام پہنچایا تو موسیٰ نے اپنی بے سروسامانی اور شدید ضرورت کی وجہ سے موقع کو غنیمت جانا اور اس کے ساتھ چل پڑے خود آگے اور لڑکی پیچھے سے انہیں راستہ بتاتی رہی، شعیب (علیہ السلام) کے پاس پہنچ کر جب انہیں زرا سکون میسر ہوا تو اپنا سارا ماجرا ان سے بیان کیا، انہوں نے اطمینان دلایا اور کہا کہ تم ظالموں کی سلطنت کے حدود سے باہر نکل آئے اب یہاں آرام سے رہو۔