قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ ۖ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ
پھر ایک اور شخص، جس کے پاس کتاب [٣٤] کا علم تھا، کہنے لگا : ’’میں یہ تخت آپ کو آپ کی نگاہ لوٹانے سے پہلے ہی لائے دیتا ہوں‘‘ پھر جب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو پکار اٹھے :’’یہ میرے پروردگار کا فضل [٣٥] ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر [٣٦] کرتا ہوں یا ناشکری؟ اور جو شکر کرتا ہے تو اس کا شکر اس کے اپنے ہی لئے مفید [٣٧] ہے۔ اور اگر کوئی ناشکری کرے تو میرا پروردگار (اس کے شکر سے) بے نیاز ہے اور اپنی ذات [٣٨] میں بزرگ ہے۔‘‘
جن کی یہ بات سن کر آصف بن برخیا نے کہا جو بنی اسرائیل میں سے تھا اور سلیمان (علیہ السلام) کا وزیر تھا، اور جسے اللہ کا وہ اسم اعظم معلوم تھا جس کے ذریعہ اللہ سے مانگنے سے دعا قبول ہوتی ہے، اس نے کہا کہ میں پلک جھپکنے سے پہلے اسے آپ کی خدمت میں حاضر کروں گا۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ وہ خود سلیمان (علیہ السلام) تھے انہی کے پاس اللہ کی کتاب کا علم تھا، انہوں ہی جن سے کہا کہ اس سے پہلے تو میں اسے لے آؤں گا۔ شوکانی نے پہلے رائے کو ترجیح دی ہے۔ بہرحال پلک جھپکنے سے پہلے وہ عرش سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے آگیا، تو انہوں نے کہا کہ یہ محض اللہ کا فضل و کرم ہے، ورنہ میرے اندر اس کی طاقت کہاں تھی، اللہ مجھے آزمانا چاہتا ہے کہ میں طاعت و بندگی کے ذریعہ اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا معصیت و نافرمانی کے ذریعہ اس کی ناشکری کرتا ہوں، اور جو کوئی اللہ کا شکر گذار ہوتا ہے تو اس کا فائدہ اسے ہی پہنچتا ہے کہ اس کی نعمت باقی رہتی ہے، اور جو ناشکری کرتا ہے، تو اللہ اپنے بندوں کے شکر سے یکسر بے نیاز ہے، اس کا محتاج نہیں ہے اور وہ کریم ہے کہ بندوں کے کفر کے باوجود اپنی نعمتیں ان سے نہیں چھینتا ہے۔