فَلَمَّا جَاءَهَا نُودِيَ أَن بُورِكَ مَن فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا وَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
پھر جب وہ وہاں پہنچے تو ندا آئی کہ ’’مبارک ہے۔ وہ جو اس آگ میں ہے اور جو [٨] اس کے ارد گرد ہے اور پاک ہے اللہ جو سب جہان والوں کا پروردگار ہے۔
جب رات کے وقت کوہ سیناء کے پاس پہنچے، اور زمانہ سردی کا تھا، تو دیکھا کہ پہاڑ کی جانب سے آگ کی روشنی آرہی ہے، انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم یہیں ٹھہرو، میں وہاں جا کر لوگوں سے راستے کا پتہ لگا تا ہوں (اس لیے کہ وہ راستہ بھول گئے تھے) یا تھوڑی سی آگ ہی لے آتا ہوں تاکہ تم سردی کی اس رات میں کچھ گرمی حاصل کرو، جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ یہ تو آگ نہیں بلکہ نور ہے، جو ایک بہت ہی ہرے درخت سے پھوٹ کر نکل رہا ہے، اور اس نور کی تیزی اور اس درخت کا ہر اپن بڑھتا ہی جا رہا ہے، اور سر اٹھایا تو دیکھا کہ وہ نور آسمان کی طرف سے آرہا ہے اور حد نگاہ تک اس کا تسلسل قائم ہے، پھر آواز آئی کہ خیر و برکت ہے اس شخص کے لیے جو اس آگ میں کھڑا ہے جو درحقیقت اللہ کا نور ہے، اور ان لوگوں کے لیے جو اس نور کے ارد گرد رہنے والے ہیں، یعنی سرزمین شام و بیت المقدس والوں کے لیے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانبیاء آیت 71 میں سرزمین شام کو بابرکت کہا ہے۔ ﴿وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ﴾۔ اور ہم ابراہیم اور لوط کو بچا کر اس زمین کی طرف لے چلے جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لیے برکت رکھی تھی۔ چونکہ اس مقام کا تقاضا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو بندوں کے ساتھ ہر تشبیہ و مماثلت سے پاک مانا جائے اور موسیٰ علیہ السلا کو یہ بتایا جائے کہ ایسی بات نہیں کہ اللہ رب العالمین اس درخت پر بیٹھا ہے یا اس میں حلول کر گیا ہے، یا کوئی زبان حرکت کر رہی ہے جس سے یہ آواز نکل رہی ہے، اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ وہ رب العالمین جو چاہتا ہے کرتا ہے، کوئی مخلوق اس کے مشابہ نہیں ہے، کوئی چیز اس کا احاطہ کیے ہوئے نہیں ہے، وہ اکیلا اور بے نیاز ہے، اور تمام مخلوقات کی مماثلت و مشابہت سے یکسر پاک ہے۔