ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۖ وَغَرَّهُمْ فِي دِينِهِم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں (ان کا عقیدہ بن چکا ہے) کہ ماسوائے گنتی کے چند ایام دوزخ کی آگ انہیں ہرگز نہ چھوئے گی [٢٨] اور اپنے دین میں ان کی خود ساختہ باتوں نے انہیں دھوکہ میں مبتلا کر رکھا ہے
21۔ یہودیوں نے قرآن کریم اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے دو اسباب کی وجہ سے اعراض کیا اول تو ان کا یہ گمان کاذب کہ جہنم کی آگ انہیں چند ہی دن اپنی لپیٹ میں لے گی، جس کی انہوں نے من مانی تحدید کرلی تھی، اور دوم یہ کہ اللہ کی آیات کی تکذیب کی وجہ سے شیطان نے ان کے برے اعمال کو ان کی نظروں میں اچھا بنا کر پیش کیا اور وہ دھوکے میں آگئے اور سمجھ بیٹے کہ وہ حق پر ہیں، حق سے اعراض کی وجہ سے اللہ کی طرف سے یہ ایک سزا تھی، ایسے لوگوں کا قیامت کے دن کیا حال ہوگا؟ اور کیسے عذاب کی سزا انہیں بھگتنی پڑے گی؟ اس کا تصور انسان اس دنیا میں نہیں کرسکتا۔