إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا ۗ وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ
بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتے رہے۔ اور جب ان پر ظلم ہوا تو انہوں نے بدلہ لے لیا [١٣٧] اور عنقریب ان ظالموں کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس (برے) انجام سے دو چار [١٣٨] ہوتے ہیں
60۔ شعراء بالعموم ویسے ہی ہوتے ہیں جیسی ان کی مذکورہ بالا آیتوں میں صفات بیان کی گئی ہیں، لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اہل ایمان ہوتے ہیں، اور ان کی زندگی عمل صالح کرتے گذر جاتی ہے، اور اپنے اشعار میں اللہ، اس کے رسول اور دین اسلام اور اخلاق حسنہ کی باتیں کرتے ہیں، اور اگر کوئی دشمن اللہ یا اس کے نبی کی ہجو بیان کرتا ہے تو اس کا جواب دیتے ہیں۔ ایسے شعراء کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں عام شاعروں سے مستثنی قرار دیا ہے، جیسے عبداللہ بن رواحہ، حسان بن ثابت، کعب بن مالک اور کعب بن زہیر وغیرہم، جنہوں نے نبی کریم (ﷺ)اور دین اسلام کا دفاع کیا، اور نبی کریم (ﷺ) نے مختلف اوقات میں ان کی تعریف کی اور انہیں دعا دی۔ عبداللہ بن رواحہ سے کہا، اللہ کی قسم ! تمہارے اشعار کافروں پر تیر سے بھی زیادہ کاری ضرب لگاتے ہیں۔ (مسند احمد) اور حسان بن ثابت (رض) سے کہا : مشرکین کی ہجو بیان کرو جبریل تمہارے ساتھ ہیں (ابن سعد، ابن ابی شیبہ) ایک موقع سے کہا : اے اللہ حسان کی جبریل کے ذریعہ مدد فرما (مسند احمد، ابن سعد) اور یہ حکم قیامت تک باقی رہے گا، یعنی جو شعراء ایمان و عمل صالح کو اپنا شعار بنائیں گے، توحید کی راہ پر گامزن ہوں گے، بدعت و خرافات سے دور ہوں گے، اور ان شاعروں کی تردید کریں گے جو اسلام پر اوچھے حملے کریں گے، یا کفر و بدعت کو رواج دینے کی کوشش کریں گے، یا بھلائی سے روکیں گے اور برائی کی دعوت دیں گے، تو وہ حسان بن ثابت اور عبداللہ بن رواحہ جیسے شاعروں کے زمرے میں داخل ہوں گے۔ آیت کے آخر میں کفار مکہ کو دھمکی دی گئی ہے جو رسول اللہ (ﷺ)کو کبھی کاہن اور کبھی شاعر کہتے تھے اور قرآن کریم کو جادو اور شاعری کا نام دیتے تھے۔