قَالَ آمَنتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ فَلَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ۚ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ
فرعون بول اٹھا : ’’تم موسیٰ کی بات مان گئے پیشتر اس کے کہ میں تمہیں اس کی اجازت دیتا۔ یقیناً یہ تمہارا بڑا استاد ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔ اس کا انجام تمہیں جلد ہی معلوم ہوجائے گا میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں میں کٹوا دوں گا اور تم سب کو سولی [٣٧] چڑھا دوں گا۔‘‘
فرعون جادوگروں کے یکایک ایمان لے آنے سے ڈر گیا کہ کہیں پوری قوم نہ ایمان لے آئے، اور وہ تنہا رہ جائے، اس لیے اس نے دھمکی دیتے ہوئے جادوگروں سے کہا کہ تم لوگ میری اجازت کے بغیر موسیٰ پر ایمان لے آئے ہو، اب مجھے معلوم ہوا کہ موسیٰ ہی وہ بڑا جادوگر ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں فرعون اگرچہ کسی ایسی بات کا اعتراف نہیں کرنا چاہتا تھا جس سے موسیٰ کی بڑائی ثابت ہو، لیکن یہاں اس کا مقصد عام لوگوں کو یہ باور کرانا تھا کہ موسیٰ بھی ایک جادوگر ہے، اور اسی نے دوسروں کو جادو کی تعلیم دی ہے، یعنی یہ کوئی معجزہ نہیں ہے جو موسیٰ کے رب نے اسے عطا کیا ہے۔ فرعون نے کہا، تمہیں عنقریب اپنے کیے کا انجام معلوم ہوجائے گا، میں تم میں سے ہر ایک کا ایک ہاتھ اور دوسری جانب کا ایک پاؤں کاٹ دوں گا اور کھجور کے درختوں پر سولی دے کر لٹکا دوں گا۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ فرعون نے ان مسلمانوں کو سولی دے دی تھی، اور بعض کہتے ہیں کہ اس نے ایسا نہیں کیا تھا، اور قرآن میں کوئی ایسی آیت نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ اس نے اپنے کہے پر عمل کیا تھا