سورة البقرة - آیت 283

وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے کو کوئی کاتب نہ مل سکے تو رہن با قبضہ [٤١٠] (پر معاملہ کرلو) اور اگر کوئی شخص دوسرے پر اعتماد کرے (اور رہن کا مطالبہ نہ کرے) تو جس پر اعتماد کیا گیا ہے اسے قرض خواہ کی امانت [٤١١] ادا کرنا چاہئے۔ اور اپنے پروردگار سے ڈرنا چاہیے۔ اور شہادت کو ہرگز نہ چھپاؤ۔ جو شخص شہادت کو چھپاتا ہے بلاشبہ اس کا دل گنہ گار ہے [٤١٢] اور جو کام بھی تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

387۔ اگر آدمی سفر میں ہو، اور خرید و فروخت کی نوبت آجائے، اور کاتب میسر نہ ہو تو ایسی صورت میں حقوق کی توثیق رہن کے ذریعہ کردینی چاہئے، تاکہ رہن اس بات کا ثوبت ہو کہ رہن رکھنے والے کے ذمہ اس آدمی کا حق ہے جس کے پاس رہن موجود ہے، معلوم ہوا کہ اشیائے رہن اور ضمانتوں کے ذریعے لوگوں کے حقوق کی حفاظت ہوتی ہے، اور خلاف و نزاع کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ رہن ہمیشہ صاحب حق کے قبضے میں رہنا چاہئے، اور یہ بات تحریر میں آجانی چاہئے۔ اگر راہن اور مرتہن کے درمیان مقدار قرض میں اختلاف واقع ہوجائے تو بات صاحب حق کی مانی جائے گی، اس لیے کہ رہن اس کے ہاتھ میں بطور وثیقہ موجود ہے، آیت سے یہ بھی مستفاد ہے کہ آپس میں اعتماد ہونے کی صورت میں بغیر وثیقہ اور بغیر گواہ بنائے بھی خرید و فروخت اور قرض کا لین دین کیا جاسکتا ہے، یہ بھی مستفاد ہے کہ گواہ کا اپنی گواہی چھپانا حرام ہے۔