سورة البقرة - آیت 282

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ۚ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَن يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ ۚ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا ۚ فَإِن كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ ۚ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ ۚ وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا ۚ وَلَا تَسْأَمُوا أَن تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَىٰ أَجَلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْتَابُوا ۖ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا ۗ وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ ۚ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ ۚ وَإِن تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت کے لیے ادھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ [٤٠١] اور لکھنے والا فریقین کے درمیان عدل و انصاف سے تحریر کرے۔ اور جسے اللہ تعالیٰ نے لکھنے کی قابلیت بخشی ہو اسے لکھنے سے انکار [٤٠٢] نہ کرنا چاہئے۔ اور تحریر وہ شخص کروائے جس کے ذمہ قرض ہے۔ [٤٠٣] وہ اللہ سے ڈرتا رہے اور لکھوانے میں کسی چیز کی کمی نہ کرے (کوئی شق چھوڑ نہ جائے) ہاں اگر قرض لینے والا نادان ہو یا ضعیف ہو یا لکھوانے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو پھر اس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کروا دے۔ اور اس معاملہ پر اپنے (مسلمان) مردوں میں سے [٤٠٤] دو گواہ بنا لو۔ اور اگر دو مرد میسر نہ آئیں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بناؤ کہ ان میں سے اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد [٤٠٥] دلا دے۔ اور گواہ ایسے ہونے چاہئیں جن کی گواہی تمہارے ہاں مقبول ہو۔ اور گواہوں کو جب (گواہ بننے یا) گواہی دینے کے لیے بلایا جائے تو انہیں انکار نہ کرنا [٤٠٦] چاہیے اور معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا مدت کی تعیین کے ساتھ اسے لکھوا لینے میں کاہلی نہ کرو۔ [٤٠٧] تمہارا یہی طریق کار اللہ کے ہاں بہت منصفانہ ہے جس سے شہادت ٹھیک طرح قائم ہو سکتی ہے اور تمہارے شک و شبہ میں پڑنے کا امکان بھی کم رہ جاتا ہے۔ ہاں جو تجارتی لین دین تم آپس میں دست بدست کرلیتے ہو، اسے نہ بھی لکھو تو کوئی حرج نہیں۔ اور جب تم سودا بازی کرو تو گواہ بنا لیا کرو۔ [٤٠٨] نیز کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے۔[٤٠٩] اور اگر ایسا کرو گے تو گناہ کا کام کرو گے اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ ہی تمہیں یہ احکام و ہدایات سکھلاتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

377: سودی کاروبار کے بیان کے بعد آپس میں بذریعہ قرض لین دین کا بیان ہورہا ہے، تاکہ لوگ اپنی مالی ضرورتیں جائز اور مشروع طریقوں سے پوری کریں، یہ قرآن کریم کی سب سے طویل آیت ہے، اور ابن جریر طبری نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ یہ آیت عرش سے نازل ہونے والی آخری آیت تھی، اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مؤمن بندوں کو تعلیم دی ہے کہ جب وہ بذریعہ قرض لین دین کریں تو اسے لکھ لیا کریں، اس لیے کہ قرض کی مقدار، اس کی ادائیگی کا وقت، اور گواہیوں کو ریکارڈ میں لانے کا اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ ضمانت پر لیا گیا قرض جس کی مدت معلوم ہو حلال ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہے، پھر یہ آیت پڑھی، (بخاری، طبری) قرض کے ذریعہ لین دین کو لکھنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ کوئی اس کا انکار نہ کرسکے، یا بھول نہ جائے، اس آیت کریمہ سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں : 1۔ قرض کے ذریعہ لین دین جائز ہے۔ 2۔ قرضوں کے تمام لین دین میں مدت کی تحدید ضروری ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے قرضوں کو لکھ لینے کا حکم دیا ہے۔ 4۔ لکھنے والا عدل و انصاف کے ساتھ لکھے، اور قرابت یا عداوت سے متاثر نہ ہو۔ 5۔ یہ ضروری ہے کہ لکھنے والا انصاف کے تقاضوں کو جانتا ہو، اور خود بھی صفت عدل کے ساتھ متصف ہو۔ 6۔ کاتب کی تحریر قرضدار کا اعتراف ہوتا ہے، اور اگر وہ صغر سنی، کم عقلی، جنون، گونگا پن، یا عدم قدرت کی وجہ سے اپنے اوپر لوگوں کے حقوق کی تعبیر اچھی طرح نہیں کرسکتا، تو اس کے ولی کی تعبیر اس کی تعبیر کے قائم مقام ہوگی۔ 7۔ قرضدار جب لوگوں کے حقوق کاتب کو لکھائے تو اللہ سے ڈرے، اور ان کے حقوق اور شروط و قیود میں کمی و زیادتی نہ کرے۔ 8۔ خرید و فروخت میں گواہ مقرر کرنا ضروری ہے۔ 9۔ گواہ دو مرد، یا ایک مرد اور دو عورتیں ہوں گی۔ 10۔ گواہی یقینی بات پر ہو، شک پر نہیں۔ 11۔ جب گواہ کی ضرورت پڑے تو اسے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ 12 کاتب و شاہد کو کسی کے نقصان کا سبب نہیں بننا چاہئے، اسی طرح اصحاب معاملہ کو کاتب و شاہد کے نقصان کا سبب نہ بننا چاہئے۔