اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا نور [٥٩] ہے۔ اس کے نور کی مثال ایک ایسی ہے جیسے ایک طاق ہو جس میں ایک چراغ ہو، یہ چراغ فانوس میں رکھا ہوا ہو، وہ فانوس ایسا صاف شفاف ہو جیسے ایک چمکتا ہوا ستارہ۔ اور وہ چراغ زیتون کے مبارک درخت (کے تیل) سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ مشرق میں ہوتا ہے اور نہ مغرب میں۔ اس کے تیل کو اگر آگ نہ بھی چھوئے تو بھی وہ از خود بھرک اٹھنے کے قریب ہوتا ہے (اسی طرح) روشنی پر روشنی [٦٠] (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہوگئے ہوں) اللہ اپنے ایسے ہی زر کی طرف جسے چاہتا ہے، رہنمائی [٦١] کردیتا ہے۔ اور اللہ مثالیں بیان کرکے لوگوں کو سمجھاتا ہے اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
23۔ یہ آیت کریمہ ان آیات میں سے ہے جن سے متعلق علمائے کرام نے مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ امام غزالی کی کتاب مشکاۃ الانوار مشہور ہے، امام ابن القیم نے اپنی کتاب الجیوش الاسلامیہ میں اس آیت کے ضمن میں بہت ہی عمدہ اور مفید بات پیش کی ہے۔ ﴿ اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ میں نور سے مراد نور والا، یعنی اللہ تعالیٰ کی زات ہے، جس نے پوری کائنات کو شمس و قمر اور کواکب کے ذریعہ روشن و منور کر رکھا ہے۔ مفسر ابو السعود لکھتے ہیں کہ نور والے کو نور سے تعبیر کر کے روشنی کی انتہائی قوت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس طرف بھی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اللہ خود اپنی ذات کے ذریعہ ظاہر ہے اور اپنے سوا تمام موجودات کو اسی نے ظاہر کیا ہے، جس طرح روشنی بذات خود ظاہر ہوتی ہے اور دوسری چیزیں اس کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہیں اور نور کی اضافت سماوات و ارض کی طرف کی گئی ہے، تاکہ معلوم ہو کہ اللہ کی ذات پوری کائنات کو روشن کیے ہوئے ہیں۔ صحیحین میں ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) جب رات کو اٹھتے تو کہتے : اللھم لک الحمد، انت قیم السموات والارض انت نور السموات والارض ومن فیھن الحدیث۔ اس دعا میں رسول اللہ (ﷺ) نے اللہ تعالیٰ کو آسمانوں اور زمین کا نور بتایا ہے۔ ﴿ مَثَلُ نُورِهِ ﴾ وہ نور جو باری تعالیٰ کی ذات سے پھوٹتا ہے اور جو کائنات کی تمام چیزوں کو روشن کیئے ہوئے ہے، اس کی انتہائی قوت اور انتہائی روشنی کا تصور لوگوں کے ذہنوں میں بٹھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک مثال دی ہے کہ جیسے کسی دیوار میں ایک طاق ہو، اس طاق میں ایک چراغ رکھا ہو، اور وہ چراغ ایک بلوریں شیشے میں ہو، اور وہ شیشہ اتنا صاف و شفاف اور چمکدار ہو کہ جیسے موتی کے مانند چمکتا ہوا کوئی ستارہ، اور اس چراغ کا تیل زیتون کے ایسے درخت کا ہو جو بیچ باغ میں اونچی جگہ پر ہو، جس پر سارا دن دھوپ پڑتی رہتی ہو ( کیونکہ ایسے زیتون کا تیل نہایت عمدہ اور صاف ہوتا ہے) جس کا تیل اتنا صاف شفاف ہو کہ چراغ کو آگ سے روشن کرنے سے پہلے خود تیل سے روشنی پھوٹ رہی ہو، یعنی وہ چراغ کیا ہے گویا نور ہی نور ہے، روشنی ہی روشنی ہے، اسی طرح اللہ کا نور بھی روشنی ہی روشنی ہے، وہاں ظلمت و تاریکی کا نام و نشان نہیں ہے۔ مفسر ابو السعود کہتے ہیں کہ اللہ کے اس نور سے مراد قرآن مبین ہے، جس کی بے پایاں روشنی نے تاریکی کا خاتمہ کردیا ہے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء آیت (174) میں فرمایا ہے : ﴿ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا﴾ لوگو ! ہم نے تمہارے لیے نور مبین نازل کیا ہے، ابن عباس، حسن بصری، اور زید بن اسلم کا یہی خیال ہے کہ یہاں نور سے مراد قرآن کریم ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے مثالیں اس لیے بیان کرتا ہے تاکہ بات کو پوری طرح سمجھ لیں، جیسے اس مثال میں اللہ نے قرآن مبین کو طاق میں رکھے چراغ اور اس کی روشنی سے تعبیر کیا ہے۔ حافظ ابن القیم لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا نام نور رکھا ہے ور اپنی کتاب یعنی قرآن کو نور بنایا ہے، اپنے رسول کو نور بنایا ہے اور اپنے دین کو نور بنایا ہے، وہ اپنی مخلوق کی نگاہوں سے نور کے ذریعہ چھپ گیا ہے اس نے اپنے اولیا کا گھر نور سے بنایا ہے جو چمکتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ اور نور کی تفسیر نور والے سے کی گئی ہے جس نے کائنات کو روشن کر رکھا ہے اور جو آسمانوں اور زمین والوں کی رہنمائی کرتا ہے، اس آیت میں نور اس کا فعل ہے اور جو نور اس کی صفت ہے وہ اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ ﴿ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ﴾ کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ یہ بندہ مومن کے دل میں اللہ کے نور کی مثال ہے اور اللہ نے اپنے بندے رسول کو اس نور کا سب سے وافر حصہ دیا ہے۔ امام مسلم نے ابو موسیٰ اشعری سے ایک حدیث روایت کی ہے جس میں رسول اللہ (ﷺ) نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں فرمایا ہے کہ اس کا حجاب نور ہے اگر وہ اسے ہٹا دے تو اس کے چہرے کے انوار ان تمام مخلوقات کو خاکستر کردیں، جہاں تک اس کی نگاہ پڑے، اور مسلم ہی نے ابو ذر سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ تو آپ نے فرمایا : ایک نور دیکھا اسے کہا ں دیکھ سکتا تھا، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں : اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں ایک نور تھا، جسے نور کے ایک حجاب کی وجہ سے نہیں دیکھ سکتا تھا۔