وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اور مومن عورتوں سے بھی کہئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو از خود ظاہر ہو [٤١] جائے۔ اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں اور اپنے بناؤ سنگھار کو ظاہر [٤٢] نہ کریں مگر ان لوگوں کے سامنے : خاوند، باپ، خاوند کے باپ (سسر) بیٹے، اپنے شوہروں کے بیٹے (سوتیلے بیٹے) بھائی، بھتیجے، بھانجے [٤٣]، اپنے میل جول [٤٤] والی عورتیں، کنیزیں جن کی وہ مالک ہوں [٤٥]۔ اپنے خادم مرد [٤٦] جو عورتوں کی حاجت نہ رکھتے ہوں اور ایسے لڑکے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے [٤٧] ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ اور اپنے پاؤں زمین پر مارتے ہوئے [٤٨] نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے اس کا لوگوں کو علم ہوجائے اور اے ایمان والو! تم سب مل کر اللہ کے حضور [٤٩] توبہ کرو توقع ہے کہ تم کامیاب ہوجاؤ گے۔
19۔ اس آیت کریمہ میں مومن مردوں کی طرح مومن عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اجنبی اور غیر محرم مردوں کو نہ دیکھیں اور اگر کبھی اچانک کسی غیر محرم مرد پر نظر پڑجائے تو فورا اپنی نظر نیچی کرلیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، نہ بدکاری کریں اور نہ اپنے شوہر کے علاوہ کسی کے سامنے اپنی شرمگاہ کھولیں، ور اپنی زینت کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں۔ البتہ جو چیزیں خود ظاہر ہیں یا انہیں کبھی مجبورا ظاہر کرنا پڑتا ہے جیسے برقعہ اور اوڑھنی کا ظاہری حصہ، راستہ دیکھنے کے لیے دونوں آنکھیں اور ان کا سرمہ، کوئی چیز پکڑنے کے لیے دونوں ہاتھ اور ان میں انگوٹھی، تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ ﴿ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ﴾میں اعضائے جسم کے بجائے ان کی زینت کے اظہار کی ممانعت سے مقصود یہ ہے کہ عورتیں اپنے جسموں کی غایت درجہ پردہ پوشی کریں، اعضا تو کیا ان پر موجود زینت کا بھی اظہار کسی حال میں نہ کریں، اور اپنے سروں کی اوڑھنیوں کو اپنی گردنوں پر لٹکا لیں، تاکہ ان کے بال، ان کی گردنیں ان کی بالیاں اور ان کے سینے سبھی چھپ جائیں۔ آیت کریمہ میں دوبارہ اظہار زینت کی ممانعت کا ذکر اس لیے آیا ہے تاکہ اس کے بعد ان لوگوں کا ذکر کیا جائے جن کے سامنے مسلمان عورت بغیر پردہ کیے جاسکتی ہے، وہ مندرجہ ذیل ہیں : عورت کا بیٹا، پوتا، اور پرپوتا، شوہر کے بیٹے، پوتے اور پرپوتے، سگا بھائی، باپ کی جانب سے بھائی، ماں کی جانب سے بھائی، اور ان کے بیٹے، پوتے اور پرپوتے، بھائی کا بیٹا، پوتا اور پرپوتا، بہن کا بیٹا، پوتا اور پرپوتا، اور بہن چاہے سگی ہو یا ماں کی جانب سے یا باپ کی جانب سے، اس لیے کہ یہ لوگ عورتوں کے محرم ہیں ان کی جانب سے کسی فتنہ کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ باپ تو ان کا ولی ہوتا ہے جو ان کی حفاظت کرتا ہے، اور شوہر کا باپ بھی اپنے بیٹے کی عزت کی حفاظت کرتا ہے، اور بیٹا تو اپنی ماں کا خادم ہوتا ہے، اسی نے اسے پیدا کیا ہے، اور شوہر کا بیٹا بھی اپنے باپ کی عزت کی حفاظت کرتا ہے، اور بھائی تو باپ کے بعد اس کا سہارا ہوتا ہے، اسی طرح بھائی کا بیٹا بھی اپنی پھوپھی کی عزت کی حفاظت کرتا ہے اور یہی حال بہن کے بیٹے کا بھی ہے۔ مسلمان عورت کافر اور مشرک عورت کے سامنے اپنی زینت ظاہر نہیں کرے گی۔ بعض لوگوں نے’’ نسائھن‘‘ سے مطلق عورت مراد لیا ہے یعنی مسلمان عورت کے لیے کسی بھی عورت کے سامنے اپنی زینت ظاہر کرنی جائز ہے۔ بعض لوگوں نے ﴿ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ﴾سے مراد صرف مشرک لونڈی لی ہے، لیکن راجح یہی ہے کہ اس سے مراد غلام اور لونڈی دونوں ہیں۔ وہ افراد جو گھر والوں میں شامل ہوں اور جو عورتوں میں کوئی رغبت نہ رکھتے ہو، جیسے نہایت بوڑھا آدمی، نامرد، پاگل وغیرہ، اور وہ چھوٹے بچے جن کے اندر ابھی شہوت پیدا نہ ہوئی ہو۔ حافظ سیوطی نے الا کلیل میں لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے چچا اور ماموں سے پردہ ضروری قرار دیا ہے اس لیے کہ آیت کریمہ میں ان دونوں کا ذکر نہیں آیا ہے۔ شعبی اور عکرمہ کہتے تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں اپنے لڑکوں سے بیان کریں گے، اور حسن بصری کے نزدیک دونوں دیگر محرم مردوں کے مانند ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ مسلمان عورت کے لیے جس طرح لوگوں کی نگاہوں سے اپنی زینت چھپانا ضروری ہے اسی طرح ان کے کانوں تک بھی اپنے زیورات کی آواز نہیں پہنچنے دینا ہے۔ اگر کسی عورت نے پازیب پہن رکھا ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ پاؤں پٹخ کر چلے، تاکہ لوگ اس کے پازیب کی آواز سن کر سمجھیں کہ اس نے پازیب پہن رکھا ہے۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس ممانعت میں ہر وہ چھپی ہوئی زینت داخل ہے جو حرکت کرنے سے ظاہر ہو، اسی ضمن میں عورت کا خوشبو لگا کر باہر نکلنا بھی آتا ہے تاکہ لوگ اس کی خوشبو محسوس کریں، سنن ترمذی میں نبی کریم (ﷺ) کی حدیث ہے کہ عورت جب خوشبو لگا کر کسی مجلس سے گزرتی ہے تو زانیہ ہوتی ہے، اور اسی ضمن میں عورت کا بیچ راستے سے چلنا ہے، نبی کریم (ﷺ) کے زمانے میں عورتیں راستہ کے کنارے چلتی تھیں اور دیوار سے چپک جاتی تھیں۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے تمام مومنوں کو اللہ کے حضور صدق دل سے توبہ کرنے کی نصیحت کی ہے، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ان تمام برے اعمال سے تائب ہوجائیں گے جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے، اور ان تمام اچھے اعمال کو اپنائیں جنہیں وہ پسند کرتا ہے، اور ظاہر ہے کہ نگاہ نیچی رکھنا، شرمگاہ کی حفاظت اور عفت و پاکدامنی کا اہتمام نیک اعمال میں بدرجہ اولی داخل ہیں۔