فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّىٰ يُؤْذَنَ لَكُمْ ۖ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا ۖ هُوَ أَزْكَىٰ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
پھر اگر ان میں کسی کو نہ پاؤ تو جب تک تمہیں اجازت [٣٥] نہ ہے اس میں داخل نہ ہونا۔ اور اگر تمہیں کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو لوٹ آؤ [٣٦]۔ یہ تمہارے لئے زیاد پاکیزہ طریقہ ہے اور جو کام تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
آیت (28) میں گزشتہ حکم کی تاکید کے طور پر کہا گیا ہے کہ آدمی جس گھر میں داخل ہونا چاہے اگر اس میں کوئی موجود نہ ہو تو بغیر اجازت نہ داخل ہو، اور اگر اندر سے کوئی آدمی کہے کہ ابھی واپس چلے جاؤ تو بغیر ناراض ہوئے واپس چلا جائے، اور یہ سمجھے کہ گھر والے کی کوئی مجبوری ہوگی جبھی اسے اجازت نہیں ملی ہے۔ مسلمانوں کے دلوں کی طہارت و پاکیزگی ایسا ہی کرنے میں ہے، اسی سے ان کی آپس کی محبت باقی رہے گی، زبردستی کسی گھر میں داخل ہونا رذالت اور کمینگی ہے اور مسلمان کی عزت نفس کے خلاف ہے۔ بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے، کہتے ہیں : میں انصار کی ایک مجلس میں بیٹھا تھا کہ ابو موسیٰ اشعری گھبرائے ہوئے داخل ہوئے، لوگوں نے سبب پوچھا تو بتایا کہ مجھے عمر بن خطاب نے بلا بھیجا تھا، جب گیا تو تین بار اجازت مانگی، لیکن مجھے اجازت نہیں ملی تو میں واپس چلا گیا، انہوں نے مجھے دوبارہ بلایا اور پوچھا کہ تم آئے کیوں نہیں تھے؟ میں نے کہا کہ میں آیا تھا اور تین بار اجازت مانگی تھی اور رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص تین بار اجازت مانگے، اور اسے اجازت نہ ملے تو واپس ہوجائے، اس لیے میں واپس ہوگیا، تو عمر نے کہا کہ تمہیں اس حدیث کی صداقت پر دلیل پیش کرنی ہوگی۔ ابو سعید کہتے ہیں، لوگوں نے کہا کہ ہم میں سب سے چھوٹی عمر کا آدمی جاکر اس کی گواہی دے دے۔ چنانچہ ابو سعید نے عمر کے پاس جاکر گواہی دی کہ بہت سے صحابہ نے رسول اللہ (ﷺ) سے یہ حدیث سنی ہے۔ تو عمر نے ابو موسیٰ سے کہا کہ میں نے تمہیں متہم نہیں کیا تھا، لیکن رسول اللہ (ﷺ) کی احادیث کا معاملہ بڑا شدید ہے (یعنی خوب تحقیق کرلینی چاہیے)۔ صحیحین اور دیگر کتب حدیث میں سہل بن سعد سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے مٹی کے ایک ڈھیلا سے اپنا سر کھجاتے ہوئے رسول اللہ (ﷺ) کے کمرے میں ایک سوراخ سے جھانکا، بعد میں آپ کو جب معلوم ہوا تو فرمایا کہ اگر میں اسی وقت جان جاتا کہ تم جھانک رہے تھے تو اسی ڈھیلے سے تمہاری آنکھ پھوڑ دیتا، کسی گھر میں داخلے کی اجازت کا حکم اسی لیے ہے تاکہ کوئی کسی کے گھر میں نہ جھانکے۔