وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور تم میں سے آسودہ حال لوگوں کو یہ قسم نہ کھانا چاہئے کہ وہ قرابت داروں،[٢٧] مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ (صدقہ وغیرہ) نہ دیں گے۔ انھیں چاہئے کہ وہ ان کو معاف کردیں اور ان سے درگزر کریں۔ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کردے۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
13۔ بخاری و مسلم، ترمذی، احمد اور طبری وغیرہم نے عائشہ صدیقہ سے واقعہ افک سے متعلق ایک طویل حدیث روایت کی ہے جس میں آتا ہے کہ ابوبکر مسطح بن اثاثہ کی کفالت کرتے تھے، جو ان کے خالہ زاد بھائی تھے، جب انہوں نے واقعہ افک کے موقع سے افترا پردازوں کی ہاں میں ہاں ملایا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائشہ کی برات آگئی، تو ابوبکر نے قسم کھالی کہ اب وہ مسطح کی کفالت نہیں کریں گے، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی، ابوبکر نے جب اسے سنا تو کہا اللہ کی قسم ! میں چاہتا ہوں کہ اللہ مجھے معاف کردے ور دوبارہ مسطح کی کفالت جاری کردی۔