يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۚ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اے ایمان والو! شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ اور جو شخص شیطان کے قدموں پر چلے گا تو وہ تو بے حیائی [٢٤] اور برے کاموں کا ہی حکم دے گا۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی پاک صاف [٢٥] نہ رہ سکتا تھا۔ مگر اللہ جسے چاہے پاک سیرت [٢٦] بنا دیتا ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
12۔ مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ شیطان کے نقش قدم پر چلنے سے بچیں اس لیے کہ وہ تو ہمیشہ برے کاموں کا ہی حکم دیتا ہے، وہ تو چاہتا ہے کہ کچھ لوگ اس کے نقش قدم پر چل کر مسلمانوں کے درمیان برائی کو ہوا دیں، تاکہ مسلم سوسائٹی کی امتیازی صفت ختم ہوجائے اور اس میں برائی کا دوردورہ ہو۔ آیت کے دوسرے حصہ میں ان مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ جو محض اللہ کے فضل سے اس بہتان تراشی میں شریک نہیں ہوئے تھے کہ وہ اپنے آپ کو کامل اور بے گناہ سمجھ کر ہر دم ان مسلمانوں کو ملامت نہ کرتے رہیں جن سے یہ غلطی سرزد ہوئی تھی، بلکہ اللہ کے فضل کا اعتراف کریں کہ اس نے انہیں اس گناہ سے بچا لیا، اگر اللہ نہ چاہتا تو وہ بھی اس گناہ میں مبتلا ہوجاتے، اس لیے کہ اللہ جس کے لیے خیر چاہتا ہے اسے شیطان کے نرغے میں پڑنے سے بچا لیتا ہے اور عمل صالح کی توفیق دیتا ہے۔