إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُم ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُم مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ۚ وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ
جن لوگوں نے تہمت [١٢] کی باتیں کیں وہ تم میں سے ایک ٹولہ ہے۔ اسے تم اپنے لئے برا نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ جس نے اس میں جتنا حصہ لیا [١٣] اتنا ہی گناہ کمایا اور ان میں سے جو شخص اس تہمت کے بڑے حصہ کا [١٤] ذمہ دار بنا اس کے لئے عذاب عظیم ہے۔
6۔ اس آیت کریمہ سے مشہور واقعہ افک کی ابتدا ہورہی ہے، جس میں منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی بن سلول نے ام المومنین عائشہ صدیقہ کے خلاف افترا پردازی کرتے ہوئے ان پر صفوان بن معطل انصاری کے ساتھ گناہ کا اتہام لگایا تھا۔ اس واقعہ کو بخاری و مسلم، اہل سنن اور دیگر محدثین نے یہاں مذکور اٹھارہ آیتوں کے شان نزول کے طور پر تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان عورتوں کے لیے پردہ کی فرضیت کے بعد نبی کریم (ﷺ) 6 ھ میں صحابہ کرام کے ساتھ غزوہ بنی مصطلق کے لیے رابغ کی طرف گئے جو مدینہ منورہ اور جدہ کے درمیان واقع ہے۔ واپسی میں ایک رات مدینہ منورہ کے قریب پڑاؤ ڈالا، اور صبح کو روانہ ہوگئے، روانگی سے قبل ام المومنین عائشہ صدیقہ قضائے حاجت کے لیے گئیں تو ان کا ہار ان کے گلے سے گرگیا ، جب انہیں پتہ چلا تو اسی کو تلاش کرنے لگیں، یہاں تک کہ قافلہ روانہ ہوگیا، اور لوگوں نے ان کا خالی ہودج اونٹ پر یہ سمجھ کر رکھ دیا کہ وہ اس کے اندر بیٹھی ہیں، جب واپس آئیں تو دیکھا کہ قافلہ جا چکا ہے، اس لیے اپنی چادر اوڑھ کر وہیں یہ سوچ کر بیٹھ گئیں کہ جب قافلہ والوں کو ان کی عدم موجودگی کا علم ہوگا تو واپس آئیں گے، صفوان بن معطل انصاری رسول اللہ (ﷺ) کے حکم سے اس زمانے کے قاعدے کے مطابق وہیں رک گئے تھے، تاکہ صبح کی روشنی میں دیکھ لیں کہ قافلہ والوں کا کوئی سامان چھوٹ تو نہیں گیا ہے، جب انہوں نے عائشہ صدیقہ کو اچانک دیکھا تو (انا للہ وانا الیہ راجعون) پڑھا اور اپنا اونٹ ان کے قریب لا کر بٹھا دیا، عائشہ اس پر سوار ہوگئیں اور صفوان اونٹ کو ہانکتے ہوئے چل پڑے۔ جب قافلہ کے پاس پہنچے تو منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی نے فورا موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ آج یہ بچ کر نہیں آئی ہے، اور اس بات کو اس نے خوب ہوا دی، اور صحابہ و صحابیات سے چار آدمی اس کی اس افترا پردازی سے متاثر ہو کر اس کا ساتھ دینے لگے، جن کے نام یہ ہیں : زید بن رفاعہ، حسان بن ثابت، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش۔ کچھ دوسرے لوگ بھی متاثر ہوئے، مدینہ آنے کے بعد یہ خبر چاروں طرف پھیل گئی، رسول اللہ (ﷺ) اہل بیت اور صحابہ کرام کے گھروں میں شدید اضطراب و پریشانی آگئی۔ رسول اللہ (ﷺ) عائشہ اور ابوبکر بہت ہی زیادہ ملول خاطر ہوگئے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں عائشہ صدیقہ اور صفوان بن معطل کی برات اور پاکدامنی نازل کی، اور مدینہ کے سوگوار ماحول میں خوشیوں کی لہر دوڑ گئی۔ واقعے سے متعلق ضروری تفصیلات آیات کی تفسیر کے ضمن میں آئیں گی۔ آیت (11) میں نبی کریم (ﷺ) ابوبکر اور دیگر صحابہ کرام کو تسلی دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جن لوگوں نے اس افترا پردازی میں منافقوں کے سردار کے ساتھ حصہ لیا ہے وہ مسلمانوں ہی میں سے ہیں، اور اس بہتان تراشی سے اگرچہ تمہیں شدید تکلیف پہنچی ہے، لیکن مآل و انجام کے اعتبار سے اس سے تمہیں بھلائی ہی پہنچی ہے، وہ اس طرح کہ تم لوگوں نے جس صبر و شیکبائی کے ساتھ اسے جھیلا ہے، اس پر تمہیں بہت بڑا اجر ملے گا، اور دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ عائشہ صدیقہ کی برات اللہ تعالیٰ نے سات آسمان کے اوپر سے قرآن کریم میں نازل فرما دی، اور رہتی دنیا تک کے لیے ان کی عفت و پاکدامنی مسلمانوں کے دل و دماغ پر ثبت ہوگئی۔ اور عام مسلمانوں کے لیے اس حکم نے اللہ کی شریعت بن کر دوام حاصل کرلیا، سوائے ان روافضی شیعہ کے جو قرآن کریم کی تکذیب کرتے ہوئے عائشہ صدیقہ کے خلاف بہتان تراشی کرتے ہیں۔ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو۔ نیز اس واقعے کے ضمن میں منافقین اور شر پسندوں کو شدید دھمکی دی گئی ہے اور جن صحابہ کرام نے ابتدا سے ہی اس کی تکذیب کی ان کی تعریف کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن لوگوں نے اس بہتان تراشی میں حصہ لیا ان سب کو اس کا گناہ ملے گا جس نے اس کی ابتدا کی (یعنی عبداللہ بن ابی بن سلول) اور خوب بڑھ چڑھ کر اس کے پھیلانے میں حصہ لیا، اس کے لیے اللہ نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ابن جریر طبری نے اسامہ بن زید سے روایت کی ہے کہ اس سے مراد عبداللہ بن ابی بن سلول ہے۔ بخاری، ابن المنذر، طبرانی اور بیہقی وغیرہم نے امام زہری سے یہی روایت کی ہے۔ طبری لکھتے ہیں کہ ان آیات کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ (ﷺ) نے حسان، مسطح اور حمنہ بنت جحش کو کوڑے لگوائے، اور عبداللہ بن ابی کو چھوڑ دیا۔ علماء نے اس کی کئی توجیہات بیان کی ہیں، ایک توجیہ یہ ہے کہ جو مخلص مسلمان تھے آپ نے چاہا کہ حد قائم کر کے ان کے گناہ مٹ جائیں، اور عبداللہ بن ابی کا گناہ اس کے کفر و نفاق کے ساتھ اٹھا کر آخرت کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ امام العز بن عبدالسلام اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے کسی کو کوڑے نہیں لگوائے، اس لیے کہ حد جاری کرنے کے لیے دلیل کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے، یا تہمت لگانے والا اپنی زبان سے اس کا اقرار کرے، اور واقعہ افک میں دونوں میں سے کوئی بات نہیں پائی گئی تھی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (ﷺ) کو بذریعہ وحی اس کی خبر دی تھی، لیکن مسند احمد اور سنن کی روایات کے مطابق امام طبری کا مذکور بالا قول راجح ہے۔