يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
اے ایمان والو! جو کچھ تم نے کمایا ہے [٣٨٣] اور جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے اس میں سے اچھی چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ کوئی ردی چیز خرچ کرنے کا قصد نہ کرو۔ حالانکہ وہی چیز اگر کوئی شخص تمہیں دے تو ہرگز قبول نہ کرو الا یہ کہ چشم پوشی کر جاؤ اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے کائنات کی سب چیزیں اس کی تعریف کر رہی ہیں
346: انفاق اور کیفیت انفاق کے بیان کے بعد، اس مال کا حال بیان کیا جا رہا ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں اپنا بہترین مال خرچ کریں، چاہے وہ مال بذریعہ تجارت حاصل ہوا ہو، یا کھیتوں سے حاصل شدہ غلے ہوں، کیونکہ ایمان کا یہی تقاضا ہے، اسی لیے اللہ نے دوسری جگہ فرمایا ہے İلَنْ تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَĬ، کہ جب تک تم پسندیدہ چیز سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے۔ آل عمران : 92۔ ردی اور گلا سڑا مال اللہ کی راہ میں نہیں دینا چاہئے۔ اس لیے کہ اللہ طیب اور پاک ہے، اور عمدہ اور اچھا مال ہی قبول کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ خراب مال اللہ کی راہ میں نہ خرچ کرو، حالانکہ خود تمہارا حال یہ ہے کہ اگر کوئی تمہارا قرض چکانے کے لیے خراب مال دے تو تم اسے بطیب خاطر قبول نہیں کروگے، آنکھیں بند کر کے بصورتِ جبر و اکراہ ہی قبول کروگے۔ براء بن عازب (رض) سے مروی ہے کہ یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ کھجور پکنے کے زمانے میں لوگ مسجد نبوی میں دو عمودوں کے درمیان رسی سے کھجور کے گچھے لٹکا دیتے، تاکہ غریب مہاجرین کھایا کریں۔ بعض لوگ ان گچھوں میں ردی کھجوروں کے گچھے ملا دیتے تھے، اور سمجھتے تھے کہ ایسا کرنا جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تنبیہ فرمائی کہ ایسا کرنا جائز نہیں (ترمذی، ابن ماجہ، حاکم، بیقہی) بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مرادمال حرام ہے، کہ اللہ کی راہ میں حرام مال نہ خرچ کرو، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ پہلا قول ہی صحیح ہے۔ امام شوکانی نے دونوں ہی مراد لیا ہے۔ یعنی اللہ کی راہ میں نہ حرام مال خرچ کرو اور نہ ہی ردی مال۔