سورة البقرة - آیت 19

أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ ۚ وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یا (پھر ان منافقوں کی مثال یوں سمجھو) جیسے آسمان سے زور دار بارش ہو رہی ہو جس میں تاریکیاں بھی ہوں، بجلی کی گرج بھی ہو اور چمک بھی۔ یہ لوگ بجلی کے کڑکے سن کر موت کے ڈر کے مارے اپنے کانوں میں اپنی انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں جبکہ اللہ ان کافروں کو ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

38: اللہ تعالیٰ نے ان کی ایک دوسری مثال دی کہ ان کی مثال آسمان سے ہونے والی بارش کی ہے جس میں تاریکیاں ہوں، کڑک ہو، اور بجلی ہو، جب جب اس بجلی سے ذرا روشنی ہوتی ہے تو وہ چلنے لگتے ہیں، اور جب تاریکی عود کر آتی ہے تو گھبرا کر ٹھہر جاتے ہیں۔ یہی حال منافقین کا تھا کہ جب قرآن کریم میں مذکور اوامر و نواہی اور وعدہ ووعید سنتے، تو مارے ڈر کے، اور رعب و خوف کی وجہ سے اپنی انگلیوں کو کانوں میں ڈال لیتے، جتنا ان کے لیے ممکن ہوتا اتنا قرآن اور اس کی تعلیمات سے اعراض کرتے اور اسے برا جانتے، بالکل اس آدمی کی طرح جو بارش میں کڑک کی وجہ سے، موت کے ڈر سے، اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں میں ٹھونس لیتا ہے وہ سوچتا ہے کہ شاید اس طرح موت کا خطرہ اس سے ٹل جائے گا۔ 39: لیکن منافقین کو کہاں سے نجات مل سکتی ہے، اللہ تعالیٰ انہیں ہر طرف سے اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے کون اسے عاجز بنا سکتا ہے، کون اس کے قبضہ قدرت سے نکل سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ان کے کرتوتوں کا پورا پورا بدلہ دے کر رہے گا۔