سورة الحج - آیت 47

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ ۚ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یہ لوگ عذاب کے جلد آنے کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ اللہ کبھی اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا مگر تمہارے پروردگار کا ایک دن تمہارے شمار کے حساب سے ہزار سال [٧٥] کا ہوتا ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(27) یہ آیت کریمہ نضر بن حارث اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو عذاب کی جلدی مچاتے تھے اور کبر و عناد میں آکر رسول اللہ (ﷺ) سے مطالبہ کرتے تھے کہ جس عذاب کی انہیں دھمکی دی جاتی ہے وہ ابھی اور اسی لمحہ کیوں نہیں آجاتا۔ سورۃ الانفال آیت (32) میں ان کے اسی قول کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اے اللہ ! اگر یہ قرآن وقعی تیرا کلام ہے تو ہم پر تو آسمان سے پتھر برسا دے، یا ہم پر کوئی اور دردناک عذاب نازل کردے، اللہ تعالیٰ نے رسول کریم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ انہیں عذاب کی بڑی جلدی پڑی ہے، تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے اس کا عذاب آکر رہے گا، یہ تو اس کی غایت بردباری اور دشمنان اسلام سے انتقام لینے کی اس کی انتہائے قدرت کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ وہ جب چاہے گا انتقام لے لے گا اسی لیے لوگوں کا ہزار سال، اس کی بردباری کے پیش نظر گویا ایک دن کے مانند ہے