سورة الحج - آیت 15

مَن كَانَ يَظُنُّ أَن لَّن يَنصُرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُ مَا يَغِيظُ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جو شخص یہ خیال کرتا ہو کہ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی مدد نہیں کرے گا [١٤] (اور دوسروں کی طرف رجوع کرے) اسے چاہئے کہ آسمان تک ایک رسی لٹکائے پھر اسے کاٹ ڈالے اور دیکھے کہ کیا اس کی یہ تدبیر اس چیز کو دفع کرسکتی ہے جو اسے غصہ دلاتی ہے؟ (خواہ وہ کتنی ہی کوشش کرے تقدیر کے فیصلے کو بدل نہیں سکتا)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(8) اس آیت کریمہ میں ان یہود و مشرکین اور منافقین کا ذکر ہے جو نبی کریم (ﷺ)اور مسلمانوں کی ہر کامیابی و فتحیابی پر جل جاتے تھے اور ان کے سینے غیظ و غضب سے بھر جاتے تھے، انہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو دشمنان دین اس خام خیالی میں مبتلا تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین اسلام، اپنے نبی اور مسلمانوں کی مدد نہیں کرے گا اس لیے شک و نفاق میں پڑ کر ایمان نہیں لاتے تھے، جیسا کہ بنی اسد و غطفان نے کیا تھا، اور اب جبکہ اللہ کی مدد اپنے دین، اپنے رسول اور مسلمانوں کے لیے عیاں ہوچکی ہے، اور اس کی وجہ سے ان کا غیظ و غضب انتہا کو پہنچ چکا ہے، تو ہم انہیں اپنا غیظ و غضب دور کرنے کا ایک طریقہ بتاتے ہیں کہ وہ ایک رسی چھت کی لکڑی سے باندھ دیں اور پھر اسے اپنی گردن میں باندھ کر پوری طاقت سے کھینچیں یہاں تک کہ وہ رسی کٹ جائے اور گلا گھٹ کر ان کی موت واقع ہوجائے، پھر وہ اور دوسرے لوگ دیکھیں کہ کیا اس سے وہ سبب دور ہوگیا جس کی وجہ سے ان کا غیظ و غضب انتہا کو پہنچ گیا تھا؟ مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے غیظ و غضب میں مرتے رہیں، اللہ اپنے دین و نبی کی مدد کرتا رہے گا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المومن آیت (51) میں فرمایا ہے : یقینا ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد دنیا کی زندگی میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے۔