بَلْ مَتَّعْنَا هَٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۗ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ
بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہم نے انھیں اور ان کے آباء و اجداد کو طویل مدت [٣٩] تک سامان زیست سے فائدہ پہنچایا۔ کیا یہ دیکھتے نہیں کہ ہم ان کی زمین کو مختلف سمتوں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں۔ پھر کیا یہی غالب [٤٠] رہیں گے۔
(١٨) بتوں کی بے بسی بیان کرنے کے بعد یہاں یہ کہا جارہا ہے کہ مشرکین کو جو دنیاوی عیش و آرام حاصل ہے وہ بھی اللہ کی جانب سے ہے، اس لیے اگر وہ انہیں ہلاک کرنا چاہے تو کوئی بچا نہیں سکتا۔ مدت مدید سے اللہ کی نعمتوں سے بہرہ ور ہونے کی وجہ سے انہیں دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیے کہ ان کی نعمتیں ہمیشہ باقی رہیں گی اور کوئی آفت انہیں لاحق نہیں ہوگی، یہ ان کی بیجا خوش فہمی ہے، کیا وہ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ جزیرہ عرب کے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوتے جارہے ہیں اور اب ان کے شہر کی باری آنے والی ہے، تو کیا ان سب مشاہدات کے باوجود بھی وہ سمجھتے ہیں کہ ہم پر غلبہ حاصل کرلیں گے۔