وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اور تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور ان کی بیویاں زندہ ہوں تو ایسی بیوائیں چار ماہ دس دن انتظار کریں۔ پھر جب ان کی [٣٢٦] عدت پوری ہوجائے تو اپنے حق میں جو کچھ وہ معروف طریقے سے [٣٢٧] کریں تم پر اس کا کچھ گناہ نہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خبردار ہے
328: طلاق کی عدت بیان کرنے کے بعد اب وفات کی عدت بیان کی جا رہی ہے کہ اگر کوئی آدمی وفات پا جائے، تو اس کی بیوی کی عدت چار ماہ دس دن ہے، اس کے بعد اگر وہ عورت شرعی حدود میں زینت اختیار کرے اور شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کرے، تو اولیاء کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اسے منع کریں۔ چار ماہ دس دن کے ذریعہ مدت کی تحدید میں حکمت یہ ہے کہ اگر حمل ہوگا تو ظاہر ہوجائے گا، پانچویں ماہ کی ابتدا میں حمل حرکت کرنا شروع کردیتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کی حکمت یہ بیان کی ہے کہ اس مدت کے بعد وفات پانے والے کی محبت اس کے دل میں کمزور پڑجاتی ہے، اور شادی کی رغبت پیدا ہوجاتی ہے۔ فوائد : 1۔ اگر عورت حاملہ ہے تو اس کی عدت بچے کی ولادت ہوگی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: کہ حاملہ عورت کی عدت بچے کی ولادت ہے اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے سبیعہ اسلمیہ کو وضع حمل کے بعد شادی کی اجازت دے دی تھی، حالانکہ ان کے شوہر کے انتقال کو چند ہی دن ہوئے تھے (متفق علیہ) 2۔ دوران عدت عورت کو شادی، زینت اور بغیر شدید ضرورت کے شوہر کے گھر سے باہر رات گذارنے کی اجازت نہیں ہے۔ پہلی بات پر علماء کا اجماع ہے۔ دوسری بات کی دلیل حضرت ام سلمہ (رض) کی حدیث ہے کہ ایک عورت کا شوہر مر گیا تو اس کی ماں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے اجازت مانگی کہ وہ اپنی آنکھوں میں سرمہ لگائے، اس لیے کہ اس کی آنکھوں میں تکلیف تھی، تو آپ نے اجازت نہیں دی۔ (متفق علیہ)۔ اور تیسری بات کی دلیل فریعہ بنت مالک بن سنان (رض) کی حدیث ہے کہ ان کے شوہر کو بھاگے ہوئے غلاموں نے مدینہ سے دور کسی جگہ قتل کردیا، فریعہ کو جب یہ خبر ملی تو انہوں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کہا کہ انہیں اپنے خاندان والوں کے پاس عدت گذارنے کی اجازت دے دیں، اس لیے کہ جس گھر میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھیں دور تھا، تو آپ نے انہیں جازت نہیں دی، (ابو داود، ترمذی، نسائی، احمد وغیرہم)۔ البتہ آپ نے بعض صحابیہ کو دن میں ضرورت کے پیش نظر غالباً باغ کا پھل توڑنے کی اجازت دی تھی۔