سورة البقرة - آیت 232

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ۗ ذَٰلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ مِنكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۗ ذَٰلِكُمْ أَزْكَىٰ لَكُمْ وَأَطْهَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

نیز جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں اپنے (پہلے) خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جبکہ وہ معروف طریقے سے آپس میں نکاح کرنے [٣١٥] پر راضی ہوں۔ جو کوئی تم میں سے اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے اسی بات کی نصیحت کی جاتی ہے۔ یہی تمہارے لیے شائستہ اور پاکیزہ [٣١٦] طریقہ ہے۔ (اپنے احکام کی حکمت) اللہ ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

اس آیت میں مطلقہ غیر بائنہ عورت کے ولی کو خطاب کیا گیا ہے کہ اگر ایک یا دو طلاق کے بعد عدت گذر جائے، اور پھر دونوں ایک دوسرے کو چاہیں، اور نکاح شرعی کے ذریعہ دوبارہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا چاہیں تو انہیں نہ روکو اس لیے کہ اسی میں ہر خیر ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت معقل بن یسار مزنی (رض) اور ان کی بہن کے بارے میں نازل ہوئی، انہوں نے اپنی بہن کی شادی ایک مسلمان سے کردی، کچھ مدت کے بعد اس نے ایک طلاق دے دی اور پھر رجوع نہیں کیا، عدت گذر جانے کے بعد دونوں نے ایک دوسرے میں رغبت ظاہر کی، اور اس آدمی نے دوبارہ پیغام نکاح دیا، تو معقل (رض) نے انکار کردیا، اور کہا کہ اب یہ تیرے نکاح میں کبھی بھی نہ جائے گی، لیکن اللہ کو ان دونوں کی حاجت و رغبت کا علم تھا۔ اس لیے یہ آیت نازل فرمائی۔ جب معقل (رض) نے یہ آیت سنی تو کہا کہ اے اللہ ! میں نے تیری بات سنی اور میں تیری اطاعت کرتا ہوں پھر اس آدمی کو بلا کر کہا کہ میں اپنی بہن سے تمہاری شادی کردوں گا اور تمہارا اکرام کروں گا۔ (بخاری، ابو داود، ترمذی) فائدہ : یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اولیاء کو منع فرمایا ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو دوبارہ اپنے سابق شوہروں کے ساتھ نکاح کرنے سے روکیں، اور روکنے کا حق اسی کو حاصل ہوگا جس کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا۔