نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُم مُّلَاقُوهُ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
عورتیں تمہاری کھیتیاں [٢٩٨] ہیں۔ لہٰذا جدھر سے تم چاہو اپنی کھیتی میں آؤ۔ مگر اپنے مستقبل [٢٩٩] (کی بھلائی) کا خیال رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ تم اس سے ملنے والے ہو۔ اور جو لوگ ان باتوں پر ایمان لاتے ہیں (اے نبی) انہیں (فلاح کی) خوشخبری سنا دو
314: یہود کہا کرتے تھے کہ اگر عورت کے ساتھ اس کی پشت کی طرف سے اس کے فرج (اگلی شرمگاہ) میں جماع کیا جائے، تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے، ان کی تردید میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہے اور بیوی کے ساتھ کسی بھی جائے، تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے، ان کی تردید میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہے اور بیوی کے ساتھ کسی بھی طرف سے اس کی اگلی شرمگاہ میں جماع کرنا جائز ہے، اور اس سے بچے پر کوئی اثر نہیں پڑتا، بخاری ومسلم۔ اس آیت کے شان نزول میں ابن عباس (رض) کا ایک قول ہے جسے ابو داود اور حاکم نے روایت کی ہے، کہتے ہیں کہ قبل از اسلام انصار کے بعض محلے بعض یہودی محلوں کے آس پاس تھے اور سمجھتے تھے کہ یہود ان سے علم وفضل میں زیادہ تھے، اس لیے انصار میں بھی یہی عادت چل پڑی تھی، اہل قریش اپنی بیویوں سے زیادہ سے زیادہ تلذذ کے لیے آگے سے، پیچھے سے، اور چت لیٹی ہوئی حالت میں جماع کرتے تھے، ہجرت کے بعد ایک مہاجر نے ایک انصاری عورت سے شادی کی اور ایسا ہی کرنا چاہا تو عورت نے نکیر کی اور کہا کہ ہمارے لوگ اپنی بیویوں کے پاس پہلو کے بل آیا کرتے ہیں ویسا ہی کرو ورنہ مجھ سے الگ رہو، ان دونوں کی بات لوگوں میں پھیل گئی، حتی کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو بھی ان کی بات معلوم ہوگئی، اسی کے بعد یہ آیت نازل ہوئی، ۔ الآیۃ۔ 315: چونکہ بات قضائے شہوت سے متعلق ہو رہی تھی، اسی لیے اللہ نے تنبیہ کی کہ آدمی کو شہوت کی بندگی سے آزاد ہو کر ہمیشہ اللہ کی بندگی اختیار کرنا چاہئے۔ فرمایا کہ حصول جنت کے لیے نیک اعمال کرو، اور یاد رکھو کہ موت کے بعد اللہ کے حضور پیش ہونا ہے، اس لیے اس کی ملاقات کے لیے تیار رہو، اس کے بعد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو خطاب کر کے کہا گیا کہ آپ اہل ایمان کو اچھے بدلے کی خوشخبری دے دیں۔ فائدہ : اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کے دبر (پچھلی شرمگاہ) میں جماع کرنا حرام ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ جماع کی اجازت دی ہے جو کھیتی کی جگہ ہے اور وہ اگلی شرمگاہ ہے، وہیں جماع کرنے سے اولاد ہوتی ہے، ابو ہریرہ (رض) نے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی کی طرف روز قیامت دیکھے گا بھی نہیں جو اپنی بیوی کے دبر یعنی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرے گا، ابن ماجہ۔ محدث سندی کہتے ہیں کہ ابو داود اور ترمذی میں بھی اسی معنی کی روایت موجود ہے۔ ترمذی میں ابن عباس (رض) کی ایک دوسری روایت ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس آیا اور کہا کہ میں تو ہلاک ہوگیا، آپ نے پوچھا کہ کس چیز نے تمہیں ہلاک کردیا؟ تو اس نے کہا کہ آج کی رات میں نے اپنی سواری کو الٹ دیا تھا، یعنی پیٹ کے بل لیٹی ہوئی حالت میں جماع کیا، آپ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی کہ تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، اپنی کھیتیوں میں آگے سے، پیچھے سے، جیسے چاہو، آؤ، لیکن دبر سے اور حیض سے بچے رہو، اس حدیث کو دارمی نے بھی روایت کیا ہے۔