قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا
آپ ان سے کہہ دیجئے کہ : میں تو تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہوں [٩٠]۔ (ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ) میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا الٰہ صرف ایک ہی الٰہ ہے۔ لہٰذا ا جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ نیک عمل کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرے۔
(65) اللہ نے نبی کریم کو مخاطب کر کے فرمایا، آپ ان مشرکین سے جو آپ کی رسالت کی تکذیب کرتے ہیں کہہ دیجیے کہ میں تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہوں مجھ میں اور تم میں فرق صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر وحی نازل فرماتے ہیں، قرآن بھی اللہ نے مجھے بذریعہ وحی دیا ہے۔ یہ میرا کلام نہیں ہے، اگر تم میں سے کوئی شخص میری تکذیب کرتا ہے تو وہ قرآن جیسا کلام لاکر دکھادے، میں نے تمہیں زمانہ ماضی کے جو واقعات سنائے ہیں وہ بھی مجھے اللہ نے بذریعہ وحی بتائے ہیں، مجھے غیب کا کوئی علم نہیں ہے، میں تمہیں یہ بھی خبر دیتا ہوں کہ جس اللہ کی عبادت کی تمہیں دعوت دیتا ہوں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے تو جو کوئی ایمان رکھتا ہے کہ اسے اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے، اسے شریعت محمدیہ کے مطابق عمل صالح کرنا چاہیے اور چاہیے کہ وہ کسی بھی حال میں اللہ کی عبادت میں دوسروں کو شریک نہ کرے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : یہ آیت دلیل ہے کہ اللہ کے نزدیک عمل مقبول ہونے کی دو شرطیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ شریعت محمدیہ کے مطابق ہو، اور دوسری یہ کہ اس سے مقصود صرف اللہ کی خوشنودی ہو، شہرت، نام و نمود، ریاکاری یا کوئی اور دنیاوی غرض مقصود نہ ہو۔ وباللہ التوفیق۔