وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا
اور کہہ دیجئے کہ ہر طرح کی تعریف اس اللہ کو سزاوار ہے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا، نہ بادشاہی میں اس کا کوئی شریک ہے اور نہ ہی ناتوانی کی وجہ [١٣٠] سے اس کا کوئی مددگار ہے۔ اور اسی کی خوب خوب بڑائی بیان کیجئے۔
(71) اس آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو حکم دیا ہے کہ وہ اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے کہیں کہ وہی ذات واحد ہر حمد و ثنا کا مستحق ہے جس کی نہ کوئی اولاد ہے جیسا کہ بعض عربوں نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا، اور یہود نے عزیر (علیہ السلام) کو اور نصاری نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیا، نہ ہی دو جہان کی بادشاہت میں اس کا کوئی شریک ہے، جیسا کہ مشرکین عرب حج میں تلبیہ پکارتے ہوئے کہتے کہ : لبیک لا شریک لک لبیک الا شریکا ھو لک۔ کہ اے اللہ ! تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ جو تیرا شریک ہے۔ اور نہ ہی اس میں ذلت اور عاجزی پائے جانے کی وجہ سے اس کا کوئی ولی اور دوست ہے۔ جیسا کہ بے دین اور مجوس کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ کے اولیا ء نہ ہوتے تو اللہ کو ذلت لاحق ہوتی۔ (العیاذ باللہ) مذکورہ بالا مضمون کی مزید تاکید کے طور پر اللہ نے اپنے نبی سے فرمایا آپ یہ بیان کردیں کہ میرا رب اس سے بلند و بالا تر ہے کہ اسے کوئی نقص، عیب، محتاجی یا عاجزی لاحق ہو۔