سورة الإسراء - آیت 59

وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

جو بات ہمیں معجزے بھیجنے سے روکتی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے لوگ انھیں جھٹلاتے [٧٣] رہے۔ ہم نے قوم ثمود کو اونٹنی ایک واضح معجزہ [٧٤] دیا تھا تو انہوں نے اس سے ظلم کیا تھا۔ اور معجزے تو ہم صرف ڈرانے کی خاطر بھیجتے ہیں۔

تفسیرتیسیرارحمٰن - محمد لقمان سلفی

(38) امام احمد اور نسائی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اہل مکہ نے نبی کریم (ﷺ) سے مطالبہ کیا کہ وہ صفا پہاڑی کو سونا میں بدل دیں اور مکہ کے پہاڑوں کو ان کی جگہ سے ہٹا دیں تاکہ کھیتی کریں، تو آپ سے (بذریعہ جبریل) کہا گیا کہ اگر آپ چاہیں تو اور انتظار کرلیں، اور چاہیں تو ان کا مطالبہ پورا کردیا جائے، لیکن اس کے بعد اگر وہ کفر پر باقی رہے تو گزشتہ قوموں کی طرح انہیں بھی ہلاک کردیا جائے گا۔ آپ نے فرمایا کہ میں انتظار کروں گا، یہ آیت کریمہ اسی موقع پر نازل ہوئی، اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اہل قریش کی مطلوبہ نشانیاں ہم اس لیے نہیں بھیجتے ہیں کہ وہ بھی گزشتہ قوموں کی طرح ان نشانیوں کو جھٹلائیں گے اور انجام کار انہیں یکسر ختم کردیا جائے گا۔ اور ہمارا فیصلہ ہے کہ ان کے ساتھ ایسا نہ ہو اس امید میں کہ شاید وہ ایمان لے آئیں، یا ان کی نسلوں میں ایسے لوگ آئیں جو ایمان لے آئیں۔ اس کے بعد قوم صالح کا ذکر بطور نمونہ کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اونٹنی بطور نشانی دی، جسے انہوں نے ہلاک کردیا تو سنت الہیہ کے مطابق انہیں بالکل ختم کردیا گیا آگے فرمایا گیا کہ ہم یہ نشانیاں لوگوں کو ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا انجام ہلاکت و بربادی ہوگی۔