سورة البقرة - آیت 199

ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

پھر وہاں سے واپس لوٹو جہاں سے سب لوگ لوٹتے [٢٧١] ہیں اور اللہ سے بخشش مانگتے رہو۔ اللہ تعالیٰ یقینا بڑا بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔

تفسیرتیسیرارحمٰن - محمد لقمان سلفی

286: یہاں مراد عرفہ سے روانگی ہے نہ کہ مزدلفہ سے، اور یہاں خطاب قریش کو بالخصوص اور عام مسلمانوں کو بالعموم ہے۔ قریش کے لوگ حج میں مزدلفہ میں ہی رک جاتے تھے، باقی تمام عرب کے لوگ عرفات تک جاتے تھے۔ قریش کے لوگ کہتے تھے کہ ہم اللہ کے گھر والے ہیں، حرم سے نہیں نکلیں گے (بخاری) اسلام آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو عرفات جانے اور وہاں سے تمام لوگوں کے ساتھ مزدلفہ ہوتے ہوئے منی واپس آنے کا حکم دیا۔ رسول اللہ (ﷺ) کی مشہور حدیث ہے کہ حج کا بنیادی کام وقوف عرفہ ہے۔