سورة الإسراء - آیت 23

وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

آپ کے [٢٣] پروردگار نے فیصلہ کردیا ہے کہ : تم اس کے علاوہ [٢٤] اور کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ بہتر [٢٥] سلوک کرو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو [٢٦] انھیں اف تک نہ کہو، نہ ہی انھیں جھڑکو اور ان سے بات کرو تو ادب سے کرو۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(14) شرک سے ممانعت کے بعد یہاں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو مخاطب کر کے صراحت کے ساتھ توحید کا حکم دیا اور اس کے بعد ہی والدین کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے کا حکم دے کر انسان کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھانی چاہی کہ توحید باری تعالیٰ اور اس کے حقوق کی ادائیگی کے بعد، دنیا میں والدین کے حقوق سے بڑھ کو کوئی حق نہیں اور اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کا خالق و موجد ہے، اس لیے اس کی عبادت ضروری ہوئی اور رحم مادر میں باپ کا نطفہ قرار پانے کے بعد ماں اس کا بوجھ نو ماہ تک ہزار تکلیفیں برداشت کر کے ڈھوتی رہتی ہے اور جب اللہ کی قدرت سے ماں کے پیٹ سے بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ بالکل عاجز و کمزور ہوتا ہے اس میں حرکت کرنے کی بھی صلاحیت نہیں ہوتی، اس وقت سے ماں اور باپ اللہ کے بعد اس کا سہارا بنتے ہیں اس کی حفاظت کی خاطر دن کا چین اور رات کا سکون کھو دیتے ہیں اور ہر جتن کر کے اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں، اسے اپنی نگاہ شفقت کے زیر سایہ پالتے ہیں، تو گویا اس کے وجود و بقا کے لیے اللہ کی قدرت و ربوبیت کے بعد انہی دونوں کی شفقت و محبت کام کرتی ہے، اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کا جو طریقہ سکھلایا ہے اس سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو اپنے والدین کی تعظیم و تکریم اور خدمت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھنی چاہیے، جب دونوں یا ان میں سے ایک بوڑھے ہوجائیں تو ان پر نگاہ شفقت و محبت ڈالے، ان کی خدمت کر کے قلبی راحت محسوس کرے اور ان کی خدمت کرتے ہوئے اگر کوئی تکلیف پہنچے تو اف تک نہ کرے اور ان کے ساتھ غایت محبت و اکرام کا معاملہ کرے، ان کے سامنے اپنے آپ کو جھکا کر رکھے، سخت لہجہ میں بات نہ کرے، آواز اونچی نہ کرے ان کی خدمت کو دنیا و آخرت کی سعادت و نیک بختی کا سبب سمجھے، اس لیے کہ آج وہ دونوں اس شخص کی مدد کے محتاج ہوگئے ہیں جو پیدائش کے بعد سے ان کی مدد کا محتاج ترین فرد تھا، یہاں تک کہ ان کے سایہ عاطفت میں پل بڑھ کر جوان ہوگیا۔