ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
(اے نبی)! آپ (لوگوں کو) اپنے پروردگار کے راستہ کی طرف حکمت [١٢٨] اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے ایسے طریقہ سے مباحثہ کیجئے جو بہترین ہو۔ بلاشبہ آپ کا پروردگار اسے بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک چکا ہے اور وہ راہ راست پر چلنے والوں کو بھی خوب جانتا ہے
(77) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو حکم دیا کہ وہ مخلوق کو اس کے دین کی طرف حکمت اور دانائی کے ساتھ بلائیں۔ ابن جریر کہتے ہیں کہ حکمت سے مراد قرآن و سنت ہے، یعنی دعوت کا طریقہ ان ہی دونوں کی روشنی میں متعین کریں۔ صاحب فتح البیان کہتے ہیں کہ حکمت سے مراد ایسی صحیح اور صریح بات ہے جو حق کو واضح کردے ور ہر شک و شبہ کا ازالہ کردے۔ اور موعظۃ سے مراد ایسی اچھی گفتگو ہے جسے سننے والا پسند کرے اور اس سے فائدہ اٹھائے، لیکن اگر داعی الی اللہ کا واسطہ کبھی سخت اور جھگڑالو مخالف سے پڑجائے تو اس کے سامنے حق کو بیان کرنے کے لیے مناظرانہ اسلوب اختیار کرے۔ میں اسی طرح اشارہ ہے یعنی نرمی کے ساتھ ایسی مدلل بات کرے کہ اس کا شر دب جائے، ور حق کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوجائے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص حق کی دعوت کو قبول نہیں کرتا تو آپ پریشان نہ ہوں، اس لیے کہ ہدایت دینا آپ کا کام نہیں ہے۔ اللہ زیادہ جانتا ہے کہ گمراہی پر کون باقی رہے گا اور کون ہدایت کو قبول کرے گا اور قیامت کے دن ہر ایک کو اس کی ہدایت یا گمراہی کے مطابق بدلہ دے گا۔ آپ کو دعوت کا حکم صرف اس لیے دیا گیا ہے تاکہ حجت پوری ہوجائے اور کافروں کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے۔