الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
ماہ حرام میں جنگ کا بدلہ ماہ حرام میں ہی ہوگا۔ اور تمام حرمتوں میں [٢٥٧] بدلہ یہی (برابری کی) صورت ہوگی۔ لہٰذا اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو تم بھی بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کرسکتے ہو جتنی اس نے تم پر کی ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ ڈرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے
272: حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ وغیرہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) صحابہ کرام کے ساتھ 6 ھ میں مدینہ منورہ سے عمرہ کے لیے روانہ ہوئے، اور حدیبیہ پہنچے، تو مشرکینِ مکہ نے راستہ روک دیا، اور کعبہ تک نہیں پہنچنے دیا، یہ حادثہ ماہ ذی القعدہ میں وقوع پذیر ہوا جو ماہ حرام ہے، جابر بن عبداللہ کی ایک روایت کے مطابق جسے امام احمد نے مسند میں روایت کی ہے، حدیبیہ میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے حضرت عثمان (رض) کو اپنا ایلچی بنا کر مشرکین مکہ کے پاس بھیجا، کسی طرح یہ جھوٹی خبر اڑ گئی کہ عثمان (رض) قتل کردئیے گئے، خبر کا پھیلنا تھا کہ مسلمانوں میں ایک کھلبلی مچ گئی اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے صحابہ کرام سے مشرکینِ مکہ کے خلاف جنگ کرنے کے لیے بیعت لی، جسے تاریخ اسلام بیعۃ الرضوان کے نام سے جانتی ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ عثمان (رض) کے قتل کی خبر غلط تھی، تو آپ نے مکہ والوں کے ساتھ صلح کرلی۔ اس شرط پر کہ آئندہ سال اسی مہینہ میں عمرہ کریں گے۔ چنانچہ معاہدہ کے مطابق آپ نے صحابہ کرام کے ساتھ دوسرے سال ماہ ذی القعدہ میں عمرہ کیا، تو یہ آیت نازل ہوئی: کہ ماہ حرام کی رعایت ان کے ساتھ واجب ہے، جو ماہ حرام کی رعایت کریں، اور جو اس ماہ کی حرمت کا خیال نہیں کرے گا اس کے ساتھ ماہ حرام کی حرمت کا خیال نہیں رکھا جائے گا، اس لیے کہ حرمتوں کالحاظ ان کے ساتھ ہوگا جو پہلے خود لحاظ کریں گے، چاہے وہ ماہ حرام ہو، بلد حرام ہو، احرام ہو، یا اور کوئی شے جس کی حرمت کا پاس رکھنے کا اسلام نے حکم دیا ہے۔ اور جو کوئی ان حرمتوں کو پامال کرے گا تو ان سے بدلہ لیا جائے گا اگر کوئی ماہ حرام میں جنگ پر آمادہ ہوگا تو اس سے جنگ کی جائے گی۔ 273: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عدل و انصاف کا حکم دیا ہے، حتی کہ مشرکین کے ساتھ بھی، اسی لیے دوبارہ مزید تاکید کے طور پر حرمتوں کو پامال کرنے اور کسی قسم کی زیادتی کرنے سے منع فرمایا ہے۔