إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے [٩٣] منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو
(56) چونکہ اوپر کی آیت میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) پر قرآن کریم نازل فرمایا جس میں ہر بات کھول کر بیان کردی گئی ہے، اسی لیے اس کے بعد یہ آیت لائی گئی ہے جس میں اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ہر ضروری اور بنیادی بات بیان کردی گئی ہے، یہاں عدل اور احسان کے مفسرین کرام نے مختلف معانی بیان کیے ہیں، لیکن امام شوکانی کے نزدیک عدل کا سب سے بہتر اس کا لغوی معنی ہے یعنی افراط و تفریط کے درمیان کا راستہ، یعنی دینی امور میں نہ غلو ہونا چاہیے اور نہ ہی اس میں کوئی کمی ہونی چاہیے، اسی طرح احسان کا سب سے بہتر اس کا لغوی معنی ہے، یعنی وہ عمل صالح جو واجب نہ ہوجیسے نفلی صدقہ، اور عبادات جو بندوں پر واجب نہیں ہیں، احسان کا ایک معنی وہ بھی ہے جسے حدیث جبریل میں بیان کیا گیا ہے، کہ اللہ کی عبادت اس طرح کی جائے کہ جیسے بندہ اپنے اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرابت داروں کو ان کی ضروریات کے مطابق دینے کا حکم دیا ہے، کیونکہ صلہ رحمی کا یہی تقاضا ہے، نیز فحش اور بڑے گناہوں سے اور ہر برے کام سے اور اللہ کے خلاف سرکشی اور بغاوت اور لوگوں پر ظلم و زیادتی سے منع فرمایا ہے۔ امام شوکانی نے احادیث کی کئی کتابوں کے حوالے سے عبد الملک بن عمیر سے روایت کی ہے کہ جب حکیم عرب اکثم بن صیفی کے سامنے یہ آیت پڑھی گئی تو اس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا، میں دیکھ رہا ہوں کہ محمد(ﷺ) اخلاق عالیہ کا حکم دے رہا ہے اور برے اخلاق سے روک رہا ہے، پس تم لوگ اس دین کو قبول کرنے میں آگے بڑھ کر حصہ لو اور سردار بن جاؤ، پیچھے رہنے والے نہ بنو۔ قتادہ کہتے ہیں کہ دور جاہلیت کے لوگوں میں اچھے اخلاق کی جو بات بھی پائی گئی، اس کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حکم دیا ہے، اور برے اخلاق کی جن باتوں کے ذریعہ ایک دوسرے کو عار دلاتے تھے ان سب سے اس میں منع کیا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے ہر گھٹیا اور برے اخلاق سے روکا ہے۔