ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوكًا لَّا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَمَن رَّزَقْنَاهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَجَهْرًا ۖ هَلْ يَسْتَوُونَ ۚ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
اللہ ایک مثال بیان کرتا ہے۔ ایک غلام ہے جو خود کسی کی ملکیت ہے وہ کسی چیز کی قدرت نہیں رکھتا اور دوسرا وہ ہے جسے ہم نے عمدہ رزق عطا کیا پھر وہ اس سے خفیہ اور علانیہ بہرطور خرچ کرتا ہے۔ کیا یہ دونوں برابر [٧٤] ہوسکتے ہیں؟ سب تعریف اللہ ہی کو سزاوار [٧٥] ہے بلکہ اکثر لوگ (یہ سیدھی سی بات بھی) [٧٦] نہیں جانتے
(46) عوفی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہ کافر اور مؤمن کی مثال ہے، یعنی دونوں کے درمیان موازنہ کر کے مؤمن کی برتری ظاہر کرنی مقصود ہے، اور مجاہد کی رائے ہے کہ یہ بتوں اور اللہ تعالیٰ کی مثال ہے، شوکانی صاحب فتح البیان اور جمال الدین قاسمی وغیرہم نے دوسری رائے کو ترجیح دی ہے۔ امام ابن القیم نے بھی اعلام الموقعین میں اسی کی تائید کی ہے کہ جس طرح غلام جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اور اپنے آقا کے مال میں اس کی بغیر اجازت کے تصرف کرنے سے بالکل عاجز ہوتا ہے، اس آزاد انسان کے برابر نہیں ہوسکتا جسے اللہ تعالیٰ نے خوب مال و دولت سے نوازا ہے اور پوری آزادی اور فراوانی سے دن اور رات خرچ کرتا ہے، حالانکہ اللہ کی مخلوق اور انسان ہونے میں دونوں برابر ہیں، لیکن دونوں کے حالات برابر نہیں ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ جو سارے جہان کا پالنہار ہے اس کے برابر پتھر کے تراشے ہوئے بت کیسے ہوسکتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ساری تعریفیں صرف اللہ کے لیے ہیں اس لیے کہ تمام نعمتیں اس کی دی ہوئی ہیں، پتھروں کے بنے ہوئے اصنام کیسے کسی حمد و ثنا کے مستحق ہوسکتے ہیں، لیکن اکثر لوگ (جو شرک کرتے ہیں) اس بات کو نہیں سمجھتے نہیں۔