وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ
نیز اللہ نے تمہیں رزق کے معاملہ میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دے رکھی ہے۔ پھر جن لوگوں کو رزق زیادہ دیا گیا ہے وہ ایسے تو نہیں جو زائد رزق کو اپنے غلاموں کی طرف لوٹا دیں تاکہ آقا و غلام سب رزق کے معاملہ میں برابر ہوجائیں۔ کیا پھر وہ اللہ کی نعمتوں کا ہی انکار [٧٠] کرتے ہیں
(44) اس آیت کریمہ میں مشرکین کے لیے ایک مثال بیان کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے روزی میں بعض کو بعض پر فوقیت دی ہے، کوئی فقیر ہوتا ہے اور کوئی مالدار، کوئی آقا ہوتا ہے اور کوئی غلام، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے درمیان عقل و علم، فہم و دانائی، اخلاق اور قوت و توانائی اور صحت و بیماری کے اعتبار سے فرق رکھا ہے، اور جس کی روزی میں اللہ نے وسعت دی ہے وہ اپنی دولت اپنے غلاموں کو نہیں دے دیتا تاکہ وہ اس کے برابر ہوجائیں۔ تو جب تم اپنے ہی جیسے انسان غلاموں کو اپنے برابر دیکھنا نہیں گوارہ کرتے، تو اللہ کے غلاموں کو اس کے برابر کیسے بناتے ہو؟ اور ان کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الروم آیت (28) میں اسی حقیقت کو بیان کیا ہے : اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایک مثال خود تمہاری ہی بیان فرمائی، جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے، کیا اس میں تمہارے غلاموں میں سے بھی کوئی تمہارا شریک ہے، کہ تم اور وہ اس میں برابر درجے کے ہو۔