يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
لوگ آپ سے نئے چاندوں [٢٤٨] (اشکال قمر) کے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہئے کہ یہ لوگوں کے لیے اوقات اور حج کی تعیین کے لیے ہیں۔ نیز یہ کوئی نیکی کی بات نہیں کہ تم اپنے گھروں میں پیچھے کی [٢٤٩] طرف سے آؤ بلکہ نیکی یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے۔ لہٰذا تم گھروں میں ان کے دروازوں سے ہی آیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اس طرح شاید تم فلاح پا سکو
269: آیت کا پہلا حصہ ، معاذ بن جبل اور ثعلبہ بن غنم (رض) کے بارے میں نازل ہوا۔ ان دونوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا راز ہے کہ چاند دھاگے کے مانند باریک طلوع ہوتا ہے، پھر بڑا ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ گول ہوجاتا ہے، پھر گھٹنے لگتا ہے یہاں تک کہ پہلے کی طرح باریک ہوجاتا ہے، ایک حال پر باقی نہیں رہتا، تو یہ آیت نازل ہوئی (ابو نعیم، ابن عساکر)۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا کہ چاند کے ذریعہ لوگ اپنی ضرویات زندگی کے اوقات مقرر کرتے ہیں۔ قرض، روزہ، افطار، حج، اجرتیں، ماہواری کے ایام، عورتوں کی عدت، اور بہت سی شرطوں کی مدت، یہ سارے مواعید چاند ہی کے ذریعہ معلوم ہوتے ہیں۔ 270۔ انصار اور دوسرے عرب حج کا احرام باندھ لینے کے بعد اگر کوئی ضرورت پیش آجاتی تو اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل نہیں ہوتے تھے، ان کا خیال تھا کہ عبادت اور نیکی کا تقاضا یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی، کہ یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اس کا حکم نہیں دیا ہے، نیکی یہ ہے کہ آدمی تقوی کی راہ اختیار کرے، چنانچہ اللہ نے ان کو حکم دیا کہ وہ حالت احرام میں بھی اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل ہوں۔