سورة النحل - آیت 35

وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا عَبَدْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ نَّحْنُ وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یہ مشرکین کہتے ہیں : اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اللہ کے سوا کسی چیز کی عبادت کرتے اور نہ ہمارے آباء واجداد، نہ ہی ہم اس کے حکم [٣٣] کے بغیر کسی چیز کو حرام قرار دیتے۔ ان سے پہلے لوگوں نے بھی یہی [٣٤] کچھ کیا تھا، رسولوں پر تو صرف یہی ذمہ داری ہے کہ وہ واضح طور [٣٥] پر پیغام پہنچا دیں

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(22) مشرکین مکہ اپنے کفر و شرک کے لیے اللہ کی تقدیر کو دلیل بناتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر ہم اللہ کے سوا غیروں کی عبادت کرتے ہیں اور اپنی طرف سے کچھ جانوروں کو حرام کہتے ہیں اور ہمارے آباؤ اجداد بھی ایسا کرتے رہے ہیں تو اس میں ہمارا اور ان کا کوئی قصور نہیں ہے، یہ تو اللہ کی مشیت کے مطابق ہے اگر اس کی مرضی نہ ہوتی جیسا کہ محمد (ﷺ) کا گمان ہے تو ہم ایسا نہ کرتے، تو گویا ہمارا اس کی مرضی کے مطابق ایسا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ محمد (ﷺ) جھوٹا ہے اور اللہ کی طرف غلط بات منسوب کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان سے پہلے کے مشرکین بھی اسی طرح کے ذہنی شبہ میں مبتلا ہوتے رہے اور انہی جیسی جھوٹی بات اللہ کی طرف منسوب کرتے رہے ہیں، پھر ان کے شبہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارا یہ گمان صحیح نہیں ہے کہ اس نے تمہارے شرک و کفر کی تردید نہیں کی، بلکہ اس نے اس کا شدید انکار کیا ہے اور انتہائی سختی کے ساتھ اس سے روکا ہے اور ہر زمانے اور ہر قوم کے لیے انبیاء بھیجے ہیں جنہوں نے صرف اللہ کی عبادت کی طرف بلایا اور غیروں کی عبادت سے روکا۔ آدم (علیہ السلام) کے زمانے سے لیکر نبی کریم (ﷺ) تک تمام انبیاء کی ایک ہی دعوت تھی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، صرف وہی عبادت کے لائق ہے ۔