أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۗ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ ۖ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
روزوں کی راتوں میں تمہارے لیے اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کردیا گیا ہے۔ وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس [٢٣٩] ہو۔ اللہ کو معلوم ہے کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے [٢٤٠] تھے۔ لہٰذا اللہ نے تم پر مہربانی کی اور تمہارا قصور معاف کردیا۔ سو اب تم ان سے مباشرت کرسکتے ہو اور جو کچھ اللہ نے تمہارے لیے مقدر کر رکھا ہے [٢٤١] اسے طلب کرو۔ اور فجر کے وقت جب تک سفید دھاری [٢٤٢]، کالی دھاری سے واضح طور پر نمایاں نہ ہوجائے تم کھا پی سکتے ہو۔ [٢٤٣] پھر رات تک اپنے [٢٤٤] روزے پورے کرو۔ اور اگر تم [٢٤٥] مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو پھر بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔ یہ ہیں اللہ تعالیٰ کی حدود، تم ان کے قریب بھی نہ [٢٤٦] پھٹکو۔ اسی انداز سے اللہ تعالیٰ اپنے احکام لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ پرہیزگار بن جائیں
267: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان کے روزوں سے متعلق چند اہم مسائل بیان کیے ہیں، رمضان کی راتوں میں بیوی کے ساتھ جماع کرنا، صبح صادق سے پہلے تک کھانا پینا، صبح صادق کے بعد سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے رکے رہنا، اور حالت اعتکاف میں جماع سے پرہیز، آیت کا سب نزول بھی انہی مسائل کے ارد گرد گھومتا ہے۔ 1۔ امام بخاری (رح) نے براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے کہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد لوگ پورا رمضان اپنی بیویوں کے قریب نہیں جاتے تھے، لیکن بعض لوگ خیانت کرتے تھے یعنی جماع کرلیتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیت 187، نازل فرمائی، اور رمضان کی راتوں میں جماع کرنا جائز ہوگیا۔ ایک روایت میں ہے کہ عمر بن الخطاب سے بھی ایسی غلطی ہوگئی تھی۔ 2۔ صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ صحابہ کرام اگر افطار سے پہلے سو جاتے، تو دوسرے دن تک کچھ بھی نہیں کھاتے پیتے تھے۔ قیس بن صرمہ انصاری اپنے کھیت میں کام کرتے رہے، افطار کے لیے گھر آئے۔ ان کی بیوی کھانا تلاش کرنے گئیں۔ جب تک انہیں نیند آگئی اور بغیر کھائے پئے دوسرے دن کا روزہ رکھنا پڑا، دوپہر کو بھوک اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے ہوش ہوگئے۔ تو یہ آیت نازل ہوئی، آیت ۔ جسے سن کر صحابہ کرام بہت خوش ہوئے۔ 3۔ امام بخاری نے سہل بن سعد (رض) سے روایت کی ہے کہ لوگوں نے خیط ابیض اور خیط اسود کا مفہوم نہیں سمجھا اور فجر کے بعد دیر تک کھاتے پیتے رہے، تو اللہ نے من الفجر نازل فرمایا تب لوگوں نے جانا کہ سفید اور کالے دھاگے سے مراد رات اور دن ہے۔ 4۔ ضحاک، مجاہد اور قتادہ وغیرہم سے روایت ہے کہ لوگ حالت اعتکاف میں مسجد سے نکل کر گھر جاتے تھے، اور اپنی بیوی کے ساتھ جماع کرتے تھے تو نازل ہوئی۔ فوائد :۔ 1۔ رمضان کی راتوں میں صبح صادق تک بیوی کے ساتھ جماع اور کھانا پینا جائز ہے۔ 2۔ افطار میں جلدی کرنا سنت ہے (بخاری و مسلم) 3۔ صوم وصال (بغیر افطار کیے دو یا زیادہ دن تک روزے رکھنا) سے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے منع فرمایا ہے۔ اگر کوئی چاہے تو سحری تک وصال کرسکتا ہے (صحیحین) 4۔ اعتکاف کی مدت میں بیوی کے ساتھ جماع جائز نہیں۔ 5۔ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) رمضان کے آخری عشرہ میں مسجد میں اعتکاف کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ وفات پا گئے۔ 6۔ جمہور سلف کے نزدیک، اعتکاف کے لیے دن میں روزہ رکھنا شرط ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور علامہ ابن القیم نے اسی کو ترجیح دیا ہے۔ 7۔ اگر روزہ دار کی حالت جنابت میں صبح ہوجاتی ہے تو غسل کر کے روزہ پورا کرے گا۔ (صحیحین)