يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کئے گئے تھے (اور اس کا مقصد یہ ہے) [٢٢٩] کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو
262: ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خبر دی ہے کہ ان پر روزے فرض کردئیے گئے ہیں جیسے گذشتہ قوموں پر فرض تھے اس لیے کہ روزہ رکھنے میں انسان کے لیے دنیا و آخرت کی ہر بھلائی ہے، اور اس لیے کہ آدمی جب اللہ کے لیے کھانے پینے اور مباشرت سے رک جاتا ہے، اور اپنے آپ کو اللہ کی بندگی میں مشغول کردیتا ہے، تو اللہ اسے تقوی کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ ابتدائے اسلام میں روزے ہر ماہ میں تین دن کے لیے رکھے جاتے تھے، اور مریض و مسافر حالت سفر میں روزے نہیں رکھتے تھے، بلکہ دوسرے دنوں میں رکھ لیتے تھے، اور صحت مند آدمی جو روزے رکھ سکتا تھا، اسے اجازت تھی کہ چاہے تو روزے رکھے، اور چاہے تو نہ رکھے، اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ کچھ دنوں کے بعد یہ حکم صحت مند لوگوں کے لیے رمضان کے روزوں کی فرضیت کے ذریعہ منسوخ ہوگیا، اور بوڑھے کمزور کے لیے باقی رہ گیا۔ امام بخاری نے آیت وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍĬکے بارے میں ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے۔ بلکہ یہ حکم بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کے لیے ہے، جو روزے نہیں رکھ سکتے، کہ وہ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں اور یطیقونہ کا معنی یہ بتایا ہے کہ جو لوگ عمر فانی کو پہنچ جانے کی وجہ سے روزے کی شدت برداشت نہیں کرسکتے وہ افطار کرلیں، اور روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔