فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِينَ
آخر سورج نکلنے کے وقت انھیں زبردست دھماکے نے آلیا
(30) حافظ سیوطی نے الاکلیل میں لکھا ہے کہ یہ آیت کریمہ علم فراست کے لیے دلیل ہے، ترمذی نے ابو سعید سے مرفوعا روایت کی ہے کہ مؤمن کی فراست سے ڈرو، اس لیے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے، پھر انہوں نے یہی آیت پڑھی، اس حدیث کو اگرچہ شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (الضعیفہ 1821) لیکن اس کا مفہوم بہت حد تک صحیح ہے۔ علم فراست یہ ہے کہ انسانوں کی ہیئت کذائی، ان کی شکلوں، رنگوں اور اقوال سے ان کے اخلاق اور فضائل و رذائل پر استدلال کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت (273) میں بھیک نہ مانگنے والے غریب مسلمانوں کے بارے میں نبی کریم (ﷺ) کو خطاب کر کے فرمایا ہے کہ آپ انہیں ان کے چہروں سے پہچان لیں گے، اور سورۃ محمد آیت (30) میں منافقین کے بارے میں فرمایا ہے : کہ آپ انہیں ان کے انداز گفتگو سے ہی پہچان لیں گے، معلوم ہوا کہ علم فراست ایک حقیقت ہے، جس کا قرآن اعتراف کرتا ہے، ور انسانوں کے ظاہری احوال کے ذریعہ ان کے بہت سے باطنی اخلاق اور خصلتوں کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔