وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اور اے اہل دانش! تمہارے لیے قصاص ہی میں زندگی ہے۔[٢٢٥] (اور یہ قانون اس لیے فرض کیا گیا ہے) کہ تم ایسے کاموں سے پرہیز کرو
258: اس میں اللہ تعالیٰ نے قصاص کی عظیم حکمت بیان فرمائی ہے، کہ قصاص میں زندگی ہے، اس لیے کہ جس کے ذہن میں یہ بات ہر وقت رہے گی کہ اگر اس نے کسی کو قتل کیا تو قتل کردیا جائے گا، تو وہ کسی کو قتل نہیں کرے گا، اسی طرح جب لوگ قاتل کو قتل ہوتا دیکھ لیں گے، تو دوسروں کو قتل کرنے سے خائف رہیں گے، لیکن اگر قتل کی سزا قتل کے علاوہ کچھ اور ہوتی تو شاید شر کا وہ دروازہ بند نہ ہوتا جو قاتل کھول دیتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) السیاسۃ الشرعیۃ میں کہتے ہیں کہ قتل کی تین قسمیں ہیں۔ ایک قتل عمد، یعنی کوئی کسی کو قصدا قتل کردے۔ اس قتل پر قصاص واجب ہوجاتا ہے۔ مقتول کے ورثاء چاہیں تو اسے قتل کردیں، چاہیں تو معاف کردیں، یا چاہیں تو دیت لے کر معاف کردیں اور قاتل کے علاوہ کسی دوسرے کا قتل جائز نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص معاف کردینے اور دیت لے لینے کے بعد قاتل کو قتل کردیتا ہے، تو وہ پہلے قاتل سے بڑا مجرم ہے اسی لیے بعض علماء نے کہا ہے کہ اس کا قتل کردینا واجب ہے، اس کا معاملہ مقتول کے ورثاء کے حوالے نہیں ہوگا۔ دوسری قسم قتل شبہ عمد۔ یعنی کسی نے ظلم و عدوان کی نیت سے کسی کو کوڑے یا لاٹھی وغیرہ سے مارنا شروع کیا، اسے جان سے ماردینا نہیں چاہتا تھا، لیکن اس کے ظلم و زیادتی کی وجہ سے وہ آدمی مرگیا تو اس کی دیت سو اونٹ ہے، جن میں چالیس اونٹنیاں حاملہ ہونی چاہئیں۔ تیسری قسم قتل خطا، جیسے کسی نے شکار کرنے کے لیے تیر چلایا اور وہ کسی آدمی کو غلطی سے اور لاعلمی میں لگ گیا، اس میں قصاص نہیں ہے، بلکہ دیت اور کفارہ ہے۔ فوائد : 1۔ جمہور اہل علم کا مذہب ہے کہ مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا۔ کافر کے بدلے مسلمان کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ 2۔ مرد کو عورت کے بدلے قتل کیا جائے گا، اس لیے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا ہے کہ مرد کو عورت کے بدلے قتل کیا جائے گا 3۔ والدین کو اولاد کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ 4۔ جمہور علماء کا مذہب ہے کہ ذمی آدمی مسلمان کے برابر نہیں۔ اس لیے مسلمان کو ذمی کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔